- Advertisement -

عطار کے مسکن میں یہ کیسی اداسی ہے

ایک اردو غزل از افروز عالم

عطار کے مسکن میں یہ کیسی اداسی ہے

سونے کی مقابل میں ہر سمت ہی مٹی ہے

تو صاحب قدرت ہے تو اپنا کرم رکھنا

صحرا کی طرف مائل حالات کی کشتی ہے

روشن ہے درخشاں ہے یہ دور بظاہر تو

مزدور کے بس میں تو بس ریڑھ کی ہڈی ہے

لمحوں کی تعاقب میں صدیوں کی دھروہر تھی

افسوس کے دامن میں غربت کی یہ بستی ہے

وہ صاحب مسند ہیں اس سے انہیں کیا مطلب

جذبوں کے دریچوں سے جاری کوئی ندی ہے

ہر خواب شکستہ ہے تعمیر نشیمن کا

ہر صبح کے ماتھے پر بازار کی گرمی ہے

کچھ اور مسائل سے الجھے گا ابھی عالمؔ

ہر صاحب عالم پہ چھائی ابھی مستی ہے

افروز عالم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
وقار احمد ملک کا ایک اردو کالم