اب چھاتی کے جلنے نے کچھ طور بدل ڈالا
سب درد ہو شدت کا اس دل ہی کو دل ڈالا
ہم عاجزوں کا کھونا مشکل نہیں ہے ایسا
کچھ چونٹیوں کو لے کر پائوں تلے مل ڈالا
اٹھکھیلی کی بھی اس کی دل تاب نہیں لاتا
کیا پگڑی کے پیچوں میں لے بالوں کو بل ڈالا
تشویش سے اب خالی کس دن ہے مزاج اپنا
اس دل کی خلش نے بھی کیا آہ خلل ڈالا
مجھ مست کو کیا نسبت اے میر مسائل سے
منھ شیخ کا مسجد میں میں رک کے مسل ڈالا
میر تقی میر