تمام رات ہوا کا چلن بدلتا ہے
سو جاگتے رہوجب تک چراغ جلتا ہے
سحر سے شام تلک بوند بوند گرتی ہے
وہ یاد آنکھ سے جس کا لہو نکلتا ہے
یہ رات دیر تلک جاگتے ہوئی دیکھا
ہو آنکھ نم تو ستارا کہاں سنبھلتا ہے
یہ اشک اب بھی سرِ آئنہ مری خاطر
یہی بہت ہے مرے سامنے نکلتا ہے
سو درسِ عشق کا پہلا سوال یہ ٹھہرا
یہ ہجر لازمی شے ہے؟ جواب چلتا ہے؟
عمران سیفی