مرے دوست تیری خبر ملی بڑا دکھ ہوا
تری پھر کسی سے نظر ملی بڑا دکھ ہوا
میں حقیر جسموں کو چھُو رہا تھا وثوق سے
تری روح بھی جو ادھر ملی بڑا دکھ ہوا
مجھے رات ہوتے ہی قتل کرنے کا حکم تھا
تجھے خوں بہا میں سحر ملی بڑا دکھ ہوا
وہ حسین شکل مری ہوس کے ہدف پہ تھی
جو گلی میں تھی وہی گھر ملی بڑا دکھ ہوا
جسے آئنہ بنے اک زمانہ گزر گیا
وہی ریت بارِ دگر ملی بڑا دکھ ہوا
میں وہ زندگی کا مزار ہوں کہ جہاں دعا
نہیں چاہتا تھا مگر ملی بڑا دکھ ہوا
عمران سیفی