ہاں تو صاحبان… قدردان… مہربان
جگر تھام کر بیٹھ جائیے۔ جی چاہے تو اٹھ جائیے
اپنے مایوس چہروں پر ہنسی لائیے۔ دنیا سے تھوڑی غشی لائیے
بہت رو چکے۔ بے حسی لائیے
صاحبان… قدردان… میں کون ہوں۔ کیا ہوں۔ کیوں ہوں
یہ سب آپ جانتے ہیں
مجھے دل سے مانتے ہیں
یہ آپ کی بستی ہے
جہاں جان سستی ہے
روز کوئی مرتا ہے
اور مرنے سے ڈرتا ہے
موت تو برحق ہے
اوپر بھی دوزخ ہے
میرے پاس جنت ہے۔ میرے پاس سپنے ہیں۔ آپ سبھی اپنے ہیں۔
یہ کون سی بستی ہے
جو ہمیشہ سسکتی ہے
چیخ ہے پکار ہے
غصہ ہے انگار ہے۔ کچھ ہونے کا انتظار ہے
یہاں سپنوں کا شاسن ہے
اور ہوا میں آسن ہے
جہاں سورج بیکار ہے
اندھیروں کا بیوپار ہے
میرے پاس تیج کا بھنڈا رہے
تو حاضرین! آپ کے سامنے سپنوں کا راجکمار ہے
میں جانتا ہوں۔ کنّی بھی بھوکی ہے۔ مہرالنساء بھی دکھی ہے
کنّی کو روٹی کا انتظار ہے۔ مہرالنساء شادی کے لئے بے قرار ہے۔ تو صاحبان۔ قدردان۔ آج میں مہر النساء کو لڑکا دوں گا اور کنّی کو روٹی۔ یہ رہی میرے سپنوں کی جھولی۔ دھیرے دھیرے سبھوں کو خوشی دوں گا۔ چلو کنّی چلو۔ میرے ساتھ چلو میری دنیا میں چلو۔ ارے گھبراؤ نہیں۔ کچھ پل کے لئے تو زندہ رہنے کی کوشش کرو۔ کنّی اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو مجھے دے دو۔ اپنی بڑی بہن مہرالنساء کو بھی سمجھاؤ کہ ابا اس کی شادی کر ہی نہیں سکتے۔ اب وہ چھتیس کی ہو گئی ہے۔ آنکھوں کے نیچے کالے دھبے آ گئے ہیں۔ ہڈیاں ہر طرف سے ابھرنے لگی ہیں۔ کنّی سمجھاؤ اسے کہ ابا نہیں لاسکتے اب دو وقت کی بھی روٹی۔ بھلا مہرالنساء کی شادی کہاں سے کریں گے۔ کنّی تم بھی پندرہ سال کی ہو گئی ہو اور اب تک روتی ہو روٹی کے لئے! تمہیں تو اور بھی رونا ہو گا۔ دیکھ لو مہرالنساء کی آنکھوں کے نیچے ابھرتے ہوئے کالے دھبے کو۔ تم نہیں ڈرتیں اس دھبے سے؟ تم نہیں ڈرتیں جگہ جگہ سے نکلنے والی ہڈیوں سے؟ کنّی…! میری اچھی کنّی۔ تم ابھی کام کی ہو۔ ہونٹوں کے لئے جام سی ہو۔روٹی کے لئے رونا چھوڑ دو۔ اپنے جیون کی نیاّ موڑ دو۔ اوہ! اب تم کیا سوچنے لگی۔ تم ایسی گمبھیرتا سے مت جیو۔ اس سے پہلے کہ کنّی سے قمرالنساء بن جاؤ۔ آؤ میرے ساتھ آؤ۔ میں لال پری بنا دوں گا۔ دیکھو میری جھولی میں رکھے ہیں، رنگ برنگ کے پریوں کے پر۔ تمہیں اپنے لئے جو اچھا لگے چن لو۔ ہاں ہاں آؤ میرے ساتھ آؤ۔ اب مت دیکھو مہرالنساء کی طرف۔ بڑھو۔ آگے بڑھو کنّی۔ مت منانے کی کوشش کرو مہرالنساء کو۔ وہ جانتی ہے اپنی حقیقت۔ وہ آنکھوں کے نیچے جمے کالے دھبے کو لے کر کہاں جائے گی؟ تھوڑا سفر اور طے کرنا ہے اسے۔ پھر راہ میں ہی مر جائے گی۔ کنّی! اگر تم نے سب کچھ پا لیا تو بدل جائیں گے حالات بھی۔ مہرالنساء کے دس سال کم کر دینے، اسے گوشت پوست میں تبدیل کرنے، صرف ایسا ہی نہیں، موت کے انتظار میں، جینے والے تمہارے ابا کو جینے کی چاہت دلانے کی بھی گارنٹی۔ کنّی کیا سوچ رہی ہو۔ تم خوبصورت ہو۔ زندہ ہو۔ پھر کاہے کا غم…! اچھا ایسا کرو آج کی رات سوچ لو۔ کل کا دن بھی تمہارا۔ چلو نیند آنے تک دوسری شب کی آدھی رات بھی تمہاری۔ میں پھر آؤں گا پچھلے پہر۔ اگر کھلی آنکھوں کا سپنا ہو تو میرے ساتھ چلنا۔ سونے دینا مہرالنساء اور ابا کو۔ا نہیں اب جگانے کی بھی ضرورت نہیں ہے لیکن تم جو اور آنے والی راتوں میں ان کے ساتھ سوئیں تو میں تمہاری بستی سے چلا جاؤں گا۔ کنّی تم میرے ساتھ نہیں آئیں تو کوئی خواب پورا نہیں ہو گا مہرالنساء اور تمہارے اباکا۔ میں رات کے پچھلے پہر آؤں گا۔ تم سوچ لینا۔ خوب سوچ لینا۔
سپنے لے کر آنے والا نوجوان اپنی چھڑی ہلاتا ہوا چلا جاتا ہے۔ چونکہ ایک امید دے کر وہ رخصت ہوا تھا اس لئے کنّی نے روکا نہیں۔ اس کے جانے کے بعد مہرالنساء نے کنّی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ بوسیدہ کمرے میں لوٹ آئی۔
آج پہلی رات تھی۔
مہرالنساء کا یوں بھی برسوں سے نیند سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ اپنی آنکھیں بند کیے سوچتی رہی۔ آج کنّی بھی اس کی بیداری میں شامل تھی۔ مہر النساء نے محسوس کیا کہ وہ بے چین ہے۔
’کیا ہوا کنّی… سو کیوں نہیں جاتی؟‘
’ہاں سو جاؤں گی…‘
’کنّی کیا سوچا ہے تم نے…‘
’کچھ بھی نہیں۔‘
’تو پھر کیوں جاگ رہی ہو؟‘
’اب تو حد ہو گئی۔ دو دنوں سے پیٹ میں کچھ بھی نہیں، تو پھر نیند کہاں سے آئے گی۔‘
’کنّی…! میں تیری بڑی بہن ہوں۔ برا تو نہیں چاہ سکتی۔ تو مجھ جیسا کیوں بننا چاہتی ہے۔ ابا کسی لائق نہیں رہے۔ اماں تھیں تو کس طرح گھر میں رونق تھی، کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ کیا گئیں۔ سب کچھ؟ ابا شرافت کے پردے میں رہ کو خود بھی ایک روز گزر جائیں گے۔ تو بھی مجھ جیسی ہو کر مت رہنا کنّی۔ ہم پردے کے باہر نہیں جا سکتے۔ صرف مل سکتے ہیں سپنوں کے راجکمار سے۔ میرا راجکمار تو بوڑھا ہو گیا ہے۔ وہ برسوں سے میرے پاس نہیں آتا۔ تیرا راجکمار ڈھیر ساری امنگوں کے ساتھ تیرے پاس آیا ہے۔ تو چلی جا اس کے ساتھ۔‘
’لیکن باجی …تم…!‘
’کنّی…! میں ؟ میں ہوں کہاں ؟ تجھے لگتا ہے کہ میں کہیں ہوں ؟ تو نے نہیں دیکھا راجکمار تجھے بلانے آیا تھا۔ تیرے لئے اس نے روپ بھی بدل لیا تھا۔ مجھے تو اس نے ایک پُل سمجھ رکھا تھا۔ مجھے چونکانے کے لئے پرانے زخم کرید رہا تھا۔‘
مہرالنساء بولتی رہی۔ بہت دیر تک بولتی رہی۔ پھر وہ بہک جاتی ہے۔ اندھیروں میں جا کر کچھ تلاش کرنے لگتی ہے۔ اپنی چکٹ سی پوٹلی سے نکالتی ہے بندیا۔ ٹوٹا ہوا آئینہ۔ اور چاہ کر بھی کوئی روشنی نہیں ملتی کہ وہ اپنے ماتھے پر اسے چمکتے ہوئے اس آئینے میں دیکھ سکے۔ تب وہ دیر تک رات کو سرکتے ہوئے دیکھتی رہتی ہے۔ دیکھتی ہی جاتی ہے۔ وہ اپنے روایتی مگر بوڑھے راجکمار کے بارے میں پھر سے سوچنے لگتی ہے۔
گھریلو تعلیم مکمل کرنے کے بعد پورے خاندان میں صوم و صلوٰۃ کے پابند ہونے کی خوبیوں نے اس میں زبردست اعتماد بھر دیا تھا۔ اس قدر پُرخلوص کہ ہر کوئی پنے گھر کی بہو بنانے کے لئے بے چین۔ ڈگری یافتہ نہ ہونے کے باوجود اخباروں اور رسائل پر گہری نظر رکھتی تھی۔ آئی۔اے۔ ایس کی تیاری کرنے والے اپنے خالہ زاد بھائی میاں شبو سے وہ اکثر بحث کرتی تھی۔ چونکہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے اس لئے گھر والوں کے سامنے نفسیاتی سطح پر غیر محرم ہونے کا مسئلہ بھی نہیں اٹھ پایا تھا۔
جنرل نالج کے معاملے میں اکثر مہرالنساء شبو بھائی پر حاوی ہو جاتی تھی۔ شبو بھائی کہتے کہ یہ تیاری تمہیں کرنی چاہئے تھی تومہرالنساء کہہ دیتی کہ یہاں نالج سے زیادہ ڈگری کی اہمیت ہے۔ کیونکہ ہمارا ایجوکیشنل سسٹم ہی کچھ ایسا ہے کہ چاہے صلاحیتیں ہوں کہ نہ ہوں، لیکن ڈگریوں کا بوجھ بہت ضروری ہے۔ میرے ابا کی تو انگریزی اتنی اچھی ہے کہ ان کے ڈرافٹ پر نام نہاد ڈگری یافتہ چاہ کر بھی غلطی نہیں نکال سکے۔ لیکن…؟
شبو بھائی مہرالنساء کی ذہانت سے بخوبی واقف تھے۔ اسے بہت پسند بھی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ صوم و صلوٰۃ کی پابند لڑکی کو جسم و جان کی اہمیت سے واقف کروایا۔ اسے عشق مجازی کی تمام تر لذتوں سے گزارنے کی کامیاب کوشش کرتے ہوئے زندگی بھر ساتھ رہنے کا اعتماد بھی دے ڈالا۔ مہر النساء خواب دیکھنے لگی۔ وہ دلہن کے روپ میں سجی سنوری۔ ڈھولک کی تھاپ، میراثن کی بے سُری آواز۔
بنّو تیرا مکھڑا لاکھ کا رے
بنّو تیرا بیسر لاکھ کا رے
بنّو تیری نتھیا ہے ہزاری
بنّو تیری انکھیاں سرمے دانی
پھر ایک گھر،ایک خوبصورت خاوند، بچے، دفتر، انتظار، نوک جھونک، راز کی باتیں، تفریح۔
لیکن شبو بھائی آئی۔ اے۔ ایس آفیسر نہیں ہو سکے۔ سخت ذہنی الجھنوں میں گرفتار ہوئے۔ سارے خاندان میں، مورد الزام مہرالنساء کو ٹھہرایا گیا اور پھر بدنامیاں گھر سے گلی اور گلی سے بازار پہنچیں۔ شبو بھائی دو تین عشقیہ تجربوں کے بعد ایک تجربہ کار عورت نما لڑکی کی گرفت میں آ گئے۔ اور پھر بمشکل کلرک ہوئے اور چار بچیوں کے باپ بننے کے بعد داڑھی بڑھا لی۔ سخت مذہبی ہو گئے۔ مہرالنساء کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھنے لگے۔ لیکن بیچاری مہرالنساء کر بھی کیا سکتی تھی۔ اس نے جو نہیں کیا ان گناہوں کی سزا جھیل رہی تھی۔ اب تو زندہ رہنے کے لئے شبو بھائی کو راجکمار کے روپ میں دیکھنا اس کی مجبوری تھی۔ اور ایسے میں جب دور سے آتی ہے فجر کی اذان کی آواز تو وہ ابا کے لئے وضو کا پانی رکھ دیتی ہے اور خود مصلّیٰ بچھا کر بیٹھ جاتی ہے کہ اب اکثر اسے وضو کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاتی، صرف جھک کر کچھ سوچتی رہتی ہے۔ چاہتی ہے آنکھوں میں آنسو آئے لیکن یہ دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔
اس روز کنّی کو اپنے ہاتھوں سے خوب سجایا سنوارا۔ اپنی بندیا اس کے ماتھے پر لگا دی۔ سورج کی کرنوں میں اس کا روپ اور بھی دمکنے لگا۔ ایسا لگا جیسے گھر کی کھوئی ہوئی رونق لوٹ آئی ہو۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کنّی اتنی خوبصورت بھی ہے۔ سپنوں کے راجکمار کی نگاہ پر مہرالنساء کو رشک ہونے لگا تھا۔ اس روز کنّی کو بھوک بھی نہیں لگی۔ وہ امیدوں کے ساگر میں ڈوبتی چلی جا رہی تھی اور جب جب وہاں سے ابھرتی ہتھیلیاں موتیوں سے بھری ہوتیں۔ وہ کنارے پر کھڑی مہرالنساء کی طرف سب کچھ اچھالتی جاتی۔ مہرالنساء ساحل پر ہی مچلتی رہتی۔
شام سے ہی سپنوں کے راجکمار کا انتظار تھا۔ کنّی بار بار دریچے کی طرف دیکھتی اور پھر بے چینی کے عالم میں بوسیدہ کمرے میں ٹہلنے لگتی۔ مہرالنساء اس کی بے بسی میں جینے کی آرزوؤں کو محسوس کرتے ہوئے بہت خوش تھی۔ وہ جانتی تھی کہ راجکمار وعدے کے مطابق رات کے پچھلے پہر آئے گا لیکن انتظار فیصلے کو مستحکم بنانے کے لئے ضروری تھا۔ اس نے کنّی کو نہیں سمجھایا کہ راجکمار رات کے پچھلے پہر آئے گا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں کنّی سو نہ جائے کیونکہ وہ کھلی آنکھوں کی راجکماری کے لئے آنے والا تھا۔ نیند میں ڈوبی ہوئی کنّی کے لئے نہیں۔ کچھ اور رات گزرتی ہے۔ مہرالنساء جان بوجھ کر بستر پر جا کر آنکھیں بند کر لیتی ہے اور وہ کنّی کی بے چینی کو محسوس کرتی رہتی ہے۔ کنّی اس دوران ابا کے کمرے میں بھی جاتی ہے۔ انہیں بھی روز کی طرح مضمحل پاتی ہے۔ سوچتی ہے کہ کیسے انہیں زندہ کیا جائے۔ وہ تو اب زور سے کھانس بھی نہیں سکتے۔ نہ جانے ایک ٹک کیا دیکھتے رہتے ہیں۔ کسی کو ٹھیک سے پہچانتے بھی نہیں۔ آہٹوں پر چونکنے کا سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔ کنّی کی آنکھوں میں تو آنسو ہیں۔ وہ اپنے تمام آنسوؤں کو آج اس گھر کی نذر کر دینا چاہتی ہے۔ باجی اسے نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔ ابا بھی اس قابل نہیں کہ اسے پہچان سکیں۔ وہ ماتم تو کر ہی سکتی ہے۔ راجکمار کے آنے سے پہلے وہ گھر کی دہلیز کی مفلسی کو آنسوؤں سے دھو دینا چاہتی ہے۔ مہر النساء اسے رونے دیتی ہے۔ اس کے من کے بھاری پن کو دور ہونے دیتی ہے۔ اور پھر ایسے میں رات کا پچھلا پہر شروع ہونے لگتا ہے۔
راجکمار کی آمد کے لئے وہ چہرے کو مسکان سے بھر دیتی ہے۔ آنکھیں ایک دم کھلی رکھتی ہے۔ نیند سے کوئی رشتہ رکھنا نہیں چاہتی آج کی رات۔
اور ایسے میں آتا ہے راجکمار۔ وہ دھیرے دھیرے گھر کا دروازہ کھولتی ہے۔ راجکمار کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں خود کو سونپ دیتی ہے۔ اور پھر چاروں طرف اندھکار بکھیر کر وہاں سے غائب ہو جاتی ہے۔ مہرالنساء بند آنکھوں سے ہر منظر کو سرکتے ہوئے محسوس کرتی ہے اور پھر دروازہ بند کرنے کے بعد مصلیٰ پر بیٹھ جاتی ہے۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتی ہے۔
راجکمار کنّی کو پریوں کے لباس میں شہر کی رونقوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ کنّی مختلف ہاتھوں سے گزرتے ہوئے لال پری بن جاتی ہے۔ کنّی سب کچھ جانتی تھی۔ اس نے کھلی آنکھوں سے فیصلہ کیا تھا۔ ایسانہیں کہ وہ خوش نہیں ہے کیونکہ راجکمار نے اپنا وعدہ پور اکر دیا ہے۔ مہرالنساء کی عمر دس سال کم ہو گئی ہے۔ اسے اب اپنا بوڑھا راجکمار بھی یاد نہیں آتا۔ ابا گھر میں رنگین ٹیلی ویژن پر فلمیں دیکھتے رہتے ہیں اور انہیں انتظار ہوتا ہے ڈاکیے کا، جو کنّی کے بھیجے ہوئے روپے لے کر آتا ہے۔
ہاں تو صاحبان… قدردان…
یہ کھلی آنکھوں کے سپنوں کو پورا کرنے والا راجکمار کون ہے۔ وہ اپنے وعدے بھی حقیقتوں کے رنگ میں ڈھالنا جانتا ہے۔ بس ضروری ہوتا ہے یہاں بیٹی کا جنم۔ آپ کی بوسیدہ بستیوں میں بیٹیاں ہوں تو چہرے پر ہنسی لائیے۔ بہت رو چکے۔ بے حسی لائیے۔
صاحبان… قدردان…!
قاسم خورشید