غرض کے رشتے ہیں نام کی وفائیں ہیں
مطلب ہے جس سمت اس سمت کی ہوائیں ہیں
دل ہیں دھوکہ و فریب سے بھرے ہوئے
زبان پر انت الحیات کی صدائیں ہیں
قیامت تک ساتھ نبھانے کے ہیں عہد و پیماں
محبت کی کہانی میں نظر آتی جفائیں ہیں
ہر رشتہ ہے غرض کی ڈور سے بندھا ہوا
سوچتا ہے انساں, میری کیا خطائیں ہیں
ستم ڈھاؤ جس قدر چاھو اے رگِ جاں
میرے لب پہ سدا تیرے لیئے دعائیں ہیں
اسماء بتول