یہ کون سا نظام ہے؟
یہ روز و شب کی محنتیں، یہ کاوشیں یہ کوششیں
کہ اَن گنت بہادروں کے بازو سُوکھ سُوکھ کر
جو بن گئے ہیں رَسیاں
کہ بے کراں سمندروں میں اپنی اپنی کشتیاں
بغیر چپوؤں کے ہم چلا رہے ہیں خوف سے
یہ مُنتشر اِدھر اُدھر
جو آ رہے ہیں سَر نظر
یہ سَر نہیں یہ سَر نہیں۔ ۔ یہ کھیت ہیں کپاس کے
اذیّتوں کے دشت سے گزر رہا ہے کارواں
ہمیں نہیں ہے کچھ خبر کہ کِس طرف ہیں منزلیں
مگر ہیں ہم رواں دواں
وہ چہرے جو گلاب تھے
مسرّتوں کے با ب تھے
جو چودھویں کا چاند تھے
جو باعثِ شباب تھے
وہ چہرے اب بگڑ گئے وہ چہرے اب پِچک گئے
وہ اب پُرانے برتنوں کا ڈھیر بن چکے ہیں سب
کمر کمان کی طرح سبھی کی جھُک گئی ہے اب
ہم اِک صدی کے بعد بھی اُسی جگہ پہ ہیں کھڑے
جہاں سے ہم نے اِس سفر کی، کی تھی ابتدا کبھی
یہ کون سا نظام ہے؟
یہ کون سا نظام ہے؟
جہاں پہ اِک مریض کو دوا دیے بغیر ہی
رپورٹ دے کے ہاتھ میں
اُسے یہ پھر کہے کوئی
اِسی میں تیری بہتری ہے اب یہاں سے بھاگ جا
یہ کون سا نظام ہے؟
جہاں پہ ہیں عدالتیں
عدالتوں میں منصفوں کی بھیڑ ہے مگر یہاں
جنھوں نے جھوٹ بول کر نفاستِ خیال سے بیان مُدّعا کیا
اُنہیں بری کیا گیا
مگر جنھوں نے سچ کہا اُنہی کی گردنوں کا ناپ دار پر لیا گیا
نظر کسی کی ہے اگر
تو دیکھ لے مرا یہ سَر
بنا کفن یہ سَر نہیں
مجھے کسی کا ڈر نہیں
میں سچ کہوں گا برملا کہ ساتھ ہے مرا خدا
میں پوچھتا ہوں حاکمو!
یہ گردنیں اُٹھا ؤ تو
ذرا نظر ملاؤ تو
ذرا مجھے بتاؤ تو
کیا یہی ہیں دیس کی عدالتوں کے فیصلے؟
یہ کون سا نظام ہے؟
یہ کون سا نظام ہے؟
کہ جس کی کائناتِ کل یہ فائلیں ہیں اور بس
یہ پارکوں، عمارتوں، یہ جنگلوں کی فائلیں
یہ اشتہاری مجرموں، سمگلروں، یہ قاتلوں کی فائلیں
پڑھے لکھے جو روزگار کو ترس رہے ہیں اُن کی فائلیں
یہ کالجوں کی فائلیں، یہ رہبروں کی فائلیں
یہ راشی افسروں، یہ نادہندگاں کی فائلیں
کہ یہ فلاں کی فائلیں ہیں یہ فلاں کی فائلیں
میں سوچتا ہوں ہیں یہ ساری کِس جہاں کی فائلیں؟
یہ سارے مسئلے بنے ہیں کاغذوں کی زینتیں
کہ اِن پہ آج تک عمل ذرا بھی ہو نہیں سکا
یہ سوچ کر بتاؤ تو۔ بھلا یہ اِک نظام ہے؟
نہیں نہیں کہ یہ فقط خواص کا غلام ہے
بھلا یہ کب تلک فصیل چاٹتے رہیں گے ہم؟
یہ آہنی فصیل ہے
فصیل یہ ثقیل ہے
شبیرنازش