آپ کا سلاماردو تحاریراسلامی گوشہاسلامی مضامین

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ

ایک خوبصورت تحریر از یوسف برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید فرقان حمید میں سورہ النبیاء کی آیت 107 میں ارشاد فرماتا ہے کہ

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
ترجمعہ کنزالایمان:
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے مخاطب ہے اور فرمارہا ہے کہ میں نے میری تمام مخلوق کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو رحمت بنا کر بھیجا ہےاب وہ چاہے انسان ہو جانور ہو چرند ہو یا پرند یا کوئی اور مخلوق اور یہ ہی وجہ ہے کہ انسان تو انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق بے انتہا محبت کرتی تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک اعرابی کے خیمے کے پاس سے گزرا تو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی جب اس ہرنی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا تو اس نے صدا لگائی اس کی آواز سن سرکار علیہ وآلیہ وسلم کا دھیان اس کی طرف گیا اور جب آپ علیہ وآلیہ وسلم اس کے قریب پہنچے تو اس نے عرض کیا کہ یہ اعرابی جو ایک دیہاتی ہے مجھے جنگل سے پکڑ کر لایا ہے جبکہ میرے دو بچے ہیں جو جنگل میں ہیں میرے تھنوں میں دودھ گاڑھا ہورہا ہے یا تو یہ مجھے ذبح کردے تاکہ میں اس تکلیف سے نجات پالوں یا مجھے جانے دے کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلاسکوں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس ہرنی کی بات سن کر آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں جانے دوں تو کیا تم اپنے بچوں کو دودھ پلاکر واپس آجائو گی تو اس ہرنی نے کہا کہ میں ضرور واپس آجائوں گی اور اگر میں واپس نہ آئوں تو اللہ مجھے عذاب دے یہ سن کر آپ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا وہ بڑی تیزی اور بیقراری سے جنگل کی طرف دوڑ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آگئی سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے اسے دوبارہ درخت کے ساتھ باندھ دیا اتنے میں وہ اعرابی بھی پانی کا مشکیزہ لیکر حاضر ہوگیا وہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کو دیکھ کر حیران ہوگیا اور عرض کرنے لگا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی کیا خدمت کرسکتا ہوں تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ہرنی مجھے بیچ دو تو اس اعرابی نے اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو ہدیہ کے طور پر وہ ہرنی پیش کردی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب وہ ہرنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ علیہ وسلم نے اسے آزاد کردیا حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے دیکھا کہ وہ ہرنی صدا لگاتی ہوئی جارہی تھی کہ بیشک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے آخری رسول ہیں
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر بغور اس واقعہ کو پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو ہمیں سورہ الانبیاء کی آیت نمبر 107 کی تفسیر بھی سمجھ آجائے گی کہ اللہ رب تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو دو جہاں کے لئے رحمت بناکر بھیجا اور جس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے نہ صرف ہرنی کی بات سن کر اس کی مدد کی بلکہ اس اعرابی سے اسے آزاد کرواکر اپنے بچوں کے پاس اسے بھیج دیا یہ ہے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے محبت کا انداز ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تاریخ اسلام میں ہمیں بیشمار ایسے واقعات پڑھنے کے لئے ملتے ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے کسی نے بھی سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو اپنی پریشانی اور تکلیف کے بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اس پر اسی وقت رحمت کی نظر فرما دیتے ایک حدیث کے مطابق حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے تشریف فرما ہونے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو بنوا دو اُس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تھے ہجر و فراق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں چِلاَّ (کر رو) پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور کھجور کے ستون کو گلے سے لگا لیا۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ سفرمیں ایک منزل پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم استنجا ء فرمانے کے لیے میدان میں تشریف لے گئے مگر کہیں کوئی آڑ کی جگہ نظر نہیں آئی ہاں البتہ اس میدان میں دو درخت نظر آئے جو ایک دوسرے سے کافی دوری پر تھے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ایک درخت کی شاخ پکڑکر چلنے کا حکم دیا تو وہ درخت اس طرح آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا جس طرح مہار والا اونٹ مہار پکڑنے والے کے ساتھ چلنے لگتا ہے پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے دوسرے درخت کی ٹہنی تھام کر اس کو بھی چلنے کا اشارہ فرمایا تو وہ بھی چل پڑا اور دونوں درخت ایک دوسرے سے مل گئے اور آپ نے اس کی آڑ میں اپنی حاجت رفع فرمائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حکم دیا تو وہ دونوں درخت زمین چیرتے ہوئے چل پڑے اور اپنی اپنی جگہ پر پہنچ کر جا کھڑ ے ہوئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس دنیا میں موجود اللہ تعالیٰ کی کوئی بھی مخلوق ہو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی محبت اور شفقت اسے بھی ملی اور ملتی رہے گی کیونکہ وہ رحمت اللعالمین ہیں سب کے لئیے رحمت بناکر اللہ تعالیٰ نے انہیں بھیجا ہمیں بھی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جب بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو جلد قبول فرمائے گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے احکامات کی پیروی کرنے کی سعادت عطا فرمائے اور بروز محشر اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شفاعت سے بہرامند فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

یوسف برکاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button