کہتے ہیں کہ کتا ب سے بڑھ کر کو ئی اچھا دوست یا رفیق نہیں۔ کتاب ایک ایسی عمد ہ رفیق ہے جو صرف نفع یا فائدہ ہی پہنچاتی ہے۔ کتاب ہمیں شعور حیات دیتی ہے اور کردار سازی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ کتاب زندگی، تحرک اور روشنی کی علامت ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دیکھی یا سنی ہوئی چیز یا معلومات کے مقابلے میں پڑھی گئی کوئی بھی تحریر یا مواد ہمارے ذہن پر دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے اور لمبے عرصے تک ہماری یادداشت کا حصہ رہتا ہے۔ لیکن کتب بینی کے رجحان کے حوالے سے ہمارے ملک میں صورتحال نہایت افسوسناک ہے۔ نوجوان اپنی نصابی کتب کے مطالعے تک ہی محدود ہیں اور اس کے سوا کوئی اور کتاب پڑھنا نہیں چاہتے۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ کتاب سے انسان کے صدیوں پرانے رشتے میں حالات کی نزاکتیں اور وقت کا بے رحم چرخہ بھی دراڑیں نہ ڈال سکا۔ معاشرے کا اہل ذوق طبقہ آج بھی کتاب کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے۔ علم کے متلاشیوں کو تو کتاب پڑھے بغیر نیند بھی نہیں آتی۔ کتابوں کی حد سے بڑھی ہوئی قیمتیں کتب بینی کے رجحان میں ایک بنیادی رکاوٹ کا کام کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کے کئی اہل ذوق کی تشفی پرانی کتابوں کے بازار کے ذریعے پوری ہوتی ہے۔ یوں تو پاکستان کے تقریباً ہر بڑ ے شہر میں ایسے بازار آج بھی نظر آتے ہیں لیکن اس وقت ذکر خصوصیت سے شہر کراچی کا ہے جہاں اتوار کے روز صدر کے بھرے پُرے علاقے ریگل چوک کی ایک ایسی گلی میں پرانی کتب کا بازار لگتا ہے جو عام دنوں میں کاروباری مصروفیت کی بنا پر لوگوں کی آمدورفت سے معمور نظر آتی ہے اور جہاں صحیح معنوں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ لیکن یہاں اتوار کے دن کا آغاز کتاب کے دیوانوں کی فرزانگی سے ہوتا ہے۔ ابتدا میں کتابوں کا یہ بازار ڈاؤ میڈیکل کالج، مشن روڈ اور لائٹ ہاؤس پر لگا کرتا تھا۔ جب ۱۹۵۸ میں اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا تو یہ ریگل چوک پر منتقل ہو گیا۔ کتب بینی کے شوقین ہر اتوار کی صبح ریگل چوک کی متذکرہ گلی میں کتابوں کے گرد ا س طرح اکھٹے نظر آتے ہیں، جس طرح شمع کے ارد گرد پروانے منڈلاتے ہیں۔ راقم الحروف کو یہاں بڑے بڑے شاعر، دانشور اور کتابوں کے شوقین اپنے مرتبے کا خیال کیے بغیر،زمین پر اکڑوں بیٹھے، کتابوں کے ڈھیر سے اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرتے نظر آئے۔ کئی صاحب ثروت لوگ ہزاروں روپے کی کتب ایک ہی وقت میں خرید کر لے جاتے دیکھے گئے اور کتابوں کے کئی دیوانوں نے تو یہاں سے کوڑیوں کے مول کتابیں خرید کر اپنی ذاتی لائیبریریاں بنا ڈالیں۔ کتابوں کے اس اتوار بازار میں مذہبی، سائنسی، نصابی، غیر نصابی و دیگر کتب باآسانی رعایتی قیمتوں پر مل جاتی ہیں۔ انگریزی کی کتابیں اچھی حالت میں ہونے کے باوجود بیس بیس روپے میں فروخت ہو رہی ہوتی ہیں جبکہ اردو کی کتابیں ناگفتہ بہ حالت میں ہونے کے باوجود مہنگی ہوتی ہیں۔ یہاں کے کتب فروش زیادہ تر گلی گلی گھومنے والے کباڑیوں سے کتابیں خریدتے ہیں۔ راقم کو اتوار بازار کے ایک کتب فروش نے بتایا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نامور شاعر یا ادیب انتقال کر جاتا ہے اور اس اگر اس کے لواحقین مرحوم کی کتابوں کے ذخیرے کی اہمیت سے ناواقف ہوں تو ان نادر کتب کو کوڑیوں کے مول ردی فروشوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں جہاں سے یہ کتب اتوار بازار میں پہنچ جاتی ہیں۔ نامور شاعروں اور ادیبوں کی لکھی ہوئی کئی ایسی کتابیں یہاں اتفاقا مل جاتی ہیں جن پر مصنف کے دستخط ہوتے ہیں۔ راقم کو حال ہی میں ایسی ہی ایک معرکۃ الارا کتاب ’یادوں کا جشن‘ ارزاں قیمت پر ملی جس پر اس کے مصنف کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے دستخط ہیں۔ کنور صاحب ۱۹۸۵ میں ہندوستان سے کراچی تشریف لائے تھے اور مذکورہ کتاب انہوں نے کسی شکیلہ خانم نامی خاتون کو تحفتاً پیش کی تھی۔ شکیلہ خانم تو خدا جانے کیا ہوئیں اور کتاب پہنچی اتوار بازار۔ راقم کو اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسی کتب ملیں جن پر ان کے مصنفین کے دستخط موجود ہیں۔ ان میں جیل سپریٹنڈنٹ راشد سعید کی کتاب، ایچ اقبال کی ابجد موسیقی، سرشار صدیقی کی کتب شامل ہیں۔
اسی کتابوں کے بازار ہی سے ملنے والی صادق الخیری (علامہ راشد الخیری کے صاحبزادے)کی خود نوشت میں درج ایک دوہے کا ذکر کرتا چلوں جو ذہن سے چپک کر رہ گیا۔ ۱۹۳۷ کا ذکر ہے، صادق الخیری نے ٹرین کے سفر میں اتر پردیش کی ایک ہندو دوشیزہ کو ایک مرگھٹ سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر یہ دوہا پڑھتے سنا اور پھر عمر بھر اس منظر اور اس لمحے کے اسیر رہے:
ندی کنارے دھواں اٹُھت ہے
میں جانوں کچھ ہوئے
جس کارن میں جوگن بنی
وہی نہ جلتا ہوئے
مشہور ادبی رسالوں کے ۵۰۔ ۴۰ برس پرانے شمارے بھی یہاں باآسانی دستیاب ہوتے ہیں جن میں ساقی، نیرنگ خیال، ادب لطیف اور نقوش جیسے مشہور زمانہ مستند جریدے شامل ہیں۔
کتاب کے حصول کے لیے اس کا طلبگار کس حد تک جا سکتا ہے، ا س ضمن میں راقم کو نامور نقاد پروفیسر سحر انصاری نے اپنا ایک واقعہ یوں سنایا:
’’ ۱۹۵۸ کی بات ہے، میں عید کی خریداری کے لیے صدر آیا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے مجھے پرانی کتابیں فروخت کرنے والے دکھائی دیے۔ کتابیں دیکھ کر میں عید کی خریداری بھول گیا اور ان پیسوں سے میں نے دیوان مومن خرید لیا۔ اس طرح میں نے نئے کپڑے خریدنے کے بجائے اپنے لیے سب سے قیمتی چیز خرید لی۔ یوں بھی اس زمانے میں لوگ علم و ادب کے نہایت دلدادہ تھے۔ صبح ہی سے صدر پہنچ جاتا کرتے اور قریبی ہوٹلوں میں ناشتہ کرنے کے بعد کتاب بازار کھلنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر نوشاد اور ڈاکٹر نواز علی شوق کے ذوق و شوق کا تو یہ عالم تھا کہ دونوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا کہ دیکھیں، پہلے کون بازار پہنچتا ہے۔ دوپہر کے وقت معروف افسانہ نگار غلام عباس بھی کتابوں کی خریداری کے لیے پہنچ جاتے۔ حمایت علی شاعر، غازی صلاح الدین، شکیل عادل زادہ، ڈاکٹر محمد علی، عبید اللہ بیگ اور دیگر بہت سے شاعر و ادیب، سب علمی تسکین کے لیے یہیں کا رخ کیا کرتے۔ ‘‘
لیجیے ! ذرا یہ منظر تو دیکھیے۔۔۔ گرمیوں میں تو صبح آٹھ بجے ہی سے اہل ذوق اتوار بازار پہنچ گئے ہیں۔ کتب فروش، کتابوں کو زمین پر ترتیب سے لگا رہے ہیں،اور بعض بے صبرے گاہکوں نے تو اسی دوران کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ ہر کسی کو یہی جلدی لاحق ہے کہ پسندیدہ کتاب کا بھاؤ تاؤ جلد از کر لیا جائے اس سے قبل کہ کوئی اور طلبگار آ دھمکے۔ بازار میں کتابوں کے درمیان رہنے والا سیاہ بلا اس روز کے منتخب کردہ کتابوں کے ڈھیر پر براجمان ہے۔ ایسا کتب شناس بلا شاید ہی کسی نے دیکھا ہو اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کتب فروشوں کی طرف سے بھی اس کو پوری آزادی ملی ہوئی ہے کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ دن چڑھنے کے ساتھ ساتھ گرمی بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کتابوں کے شوقین شدید دھوپ میں ارد گرد کے ماحول سے یکسر بے خبر کتابوں کے سحر میں کھوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بازار میں کتابوں کی قیمتوں کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ ایک کتاب جو بڑی جدوجہد کے بعد ایک سو بیس روپے میں خریدی گی ہے، اسی روز کوئی دوسرا کتب فروش، چالیس روپے میں فروخت کر رہا ہوتا ہے۔ کتب فروش اپنے طویل تجربے کی بنا پر خریدار کی نفسیات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور چند لمحوں میں خریدار کا مکمل جائزہ لے کر ہی کتاب فروخت کرتے ہیں۔ مشہور افسانہ نگار اے حمید نے اپنے ایک ایسے دوست کا ذکر کیا تھا جن کے پاس تاش کھیلتے وقت جب بھی عمدہ پتے آتے تو غیر ارادی طور پر ان کی ایک مونچھ پھڑکنے لگتی تھی اور یار لوگ اپنے اپنے پتے پھینک کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ کتابوں کے بازار کے گاہکوں کی مونچھوں کا تو ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ علم ضرور ہے کہ جہاندیدہ کتب فروش کتاب پسند آ جانے پر خریدار کی دلی کیفیت کا اندازہ بہ آسانی کر لیتے ہیں۔ آنکھوں کی چمک اور چہرے کا یک دم بدلتا ہوا رنگ، پسندیدہ کتاب کو دیکھ کر گاہک کی دلی کیفیت کے غماز ہوتے ہیں اور پھر کتب فروش خریدار کو جال میں پھنسے کبوتر کی مانند برتتے ہیں۔۔
صلاح عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
٭٭٭
چار ستمبر، ۲۰۱۱-عید کا پانچواں روز اور کتابوں کا اتوار بازار
کبھی جن راہوں میں اے بے وفا تو ساتھ ہوتا تھا
ترا دیوانہ اب ان راہوں سے تنہا گزرتا ہے
عید پرسکون گزری، شب و روز ہنگامہ خیز رہے، حکومت وقت کے کہنے پر تنخواہیں قبل از عید ادا کر دی گئی تھیں، سو جیبیں بھی بھاری نظر آئیں
پانچواں روز آتے آتے جو بچا تھا، سوچا کتابوں کے اتوار بازار میں لٹا آئیں، یہ خیال بھی پیش نظر تھا اس مرتبہ شاید ہی کتب فروش بازار کا رخ کریں لیکن صاحب یہ طبقہ ایسی عیاشی کا سوچ بھی کہاں سکتا ہے، سو ’کورم‘ پورا نظر آیا!
ایک شام قبل نجمہ عثمان صاحبہ کے اعزاز میں چھ بجے سے رات نو بجے تک جاری رہنے والی تقریب کا احوال لکھتے لکھتے شب کے تین ہوئے تھے لیکن اتوار بازار کا چسکہ، کیا کیجیے !
رات تین بجے گلشن اقبال میں غروب ہوئے تو علی الصبح صدر میں واقع اتوار بازار میں طلوع ہونا لازمی ٹھہرا
طبیعت مضمحل تھی اور رہی سہی کسر موسم نے تمام کی
مجال ہے کہ ایک پودا بھی اپنی جگہ سے ہل جائے، جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں گزارے ہوئے دن اور وہاں کا ساکت و جامد موسم یاد آ گیا۔۔۔۔
فضا میں بلا کا حبس تھا ؎؎ لیکن ایسا بھی نہیں کہ لو کی دعا مانگی جائے!
کراچی کا موسم کچھ ایسا ہی رہتا ہے، مشتاق یوسفی جو بات کہہ ہیں، وہ ہمیشہ کراچی کے موسم پر صادق آتی ہی رہے گی، فرماتے ہیں کہ "کراچی کا موسم ایسا ہے کہ جو کپڑا بھی پہن کر نکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہونے لگتا ہے”
خیال تھا کہ اس مرتبہ اتوار بازار میں "نیا مال” شاید ہی نظر آئے لیکن ایک پہچان کا کتب فروش آہستہ سے کان میں سرگوشی کر گیا: ’بائی صاب! دس منٹ میں آ جانا‘ — یہ ایک پشتو بولنے والا شخص ہے، شاید شہر کراچی کا واحد ٹھیٹھ پشتو بولنے والا شخص جو اردو کی کتابیں فروخت کرتا ہے، مردم شناس ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ گاہک کی وضع قطع دیکھ کر دام کھرے کرتا ہو، جو دیجیے خامشی سے رکھ لیتا ہے، دام کم ہوں تو آہستگی سے احتجاج جسے گاہک سنی ان سنی کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔۔۔۔ ہاں ! اس کو جاتا دیکھ کر نسوار کی پچکاری پھینکنا اس کا حق بھی ہے اور بے ضرر سا رد عمل بھی!
ہم اس کے پاس پہنچے۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اس کے خفیہ پیغام کا عقدہ کھلا اور ساتھ ہی چار عدد پٹ سن کے مضبوط بورے بھی!
صاحبو! بوتل کُھلنے کی بھی کیا خوشی ہوتی ہو گی جو آج "بورا” کھلنے پر گاہکوں کے چہروں پر دیکھی۔
ایک عرصے بعد شہر کراچی میں ‘بورا‘ کھلنے پر اس میں صرف اور صرف پرانی کتابیں ہی برآمد ہوتی دیکھیں اور وہ بھی صحیح سلامت، سالم، مکمل حالت میں !
شکنجے ٹُوٹ گئے، زخم بدحواس ہوئے
ستم کی حد ہے کہ اہلِ ستم اُداس ہوئے
کتابیں خوب عمدہ حالت میں تھیں، تعارف پیش خدمت ہے:
تلاش حیات۔ وحید الدین قریشی
01- تلاش حیات گم گشتہ
وحید الدین قریشی
خودنوشت
صفحات: 302
سن اشاعت: 1991
مقام اشاعت: کراچی
قریشی صاحب کے اجداد کا تعلق سہارنپور سے تھا جہاں سے وہ ہجرت کر کے وسط ہندوستان کے ایک خطہ زمین بنام مالوہ کے قصبے بھانپور میں جا بسے تھے، پھر وہاں سے کراچی کا رخ کیا!
وحید الدین قریشی صاحب نے اس کتاب میں اپنی اہلیہ کا نوحہ لکھا ہے جن کی وفات (1989) کے بعد انہیں ایسا گہرا صدمہ پہنچا کہ یہ کتاب وجود میں آئی، اپنی ایک تصویر کا عنوان رکھتے ہیں ” اے مرگ ناگہاں، تجھے کیا انتظار ہے” — مصنف کو اپنی اہلیہ سے ایسی محبت کہ کتاب میں جہاں ان کے پہلی بار یرقان میں مبتلا ہونے کا احوال شامل ہے وہاں ان سے فون پر ہونے والی آخری گفتگو بھی شامل کی گئی ہے، عالم بالا میں اپنی اہلیہ کی ممکنہ پذیرائی کا منظر بھی بیان کیا گیا ہے!
اہلیہ سے عشقیہ خط و کتابت بھی جاری رہی، سو کتاب میں شامل ہے
صاحبو! کسی ستم ظریف کا کہنا ہے کہ "بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے انسان وہاں خارش کرے جہاں نہ ہو رہی ہو”
لیکن قریشی صاحب کی روداد کے ایک ایک لفظ سے ان کی اپنی اہلیہ کے ساتھ جس نوعیت کی شدید جذباتی وابستگی ظاہر ہوتی ہے، اس کے احترام میں قاری کا دل بھی گداز ہو جاتا ہے چاہے قاری کی اپنی اہلیہ کتنی ہی خونخوار کیوں نہ ہو!
یہ تو وہی جانتا ہے جس کا عمر بھر کا ساتھ چھوٹ گیا ہو، عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ کسی ایک کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کے غم میں گھلتا ہوا ساتھی بھی دنیا چھوڑ گیا۔ ان دنوں پٹنہ کے کلیم احمد عاجز کی دلچسپ خودنوشت "جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ” زیر مطالعہ ہے۔ ایک عجب پر اثر واقعہ اس کتاب میں پڑھا، کلیم صاحب کے پڑوس میں سید کبیر الدین رہتے تھے، چھوٹا ناگپور کے محکمہ جنگلات میں داروغہ تھے، بہت خاموش آدمی، لوگوں سے ملنا جلنا بہت ہی کم، جب گھر آتے تو گھر پر ہی رہتے، کبھی زور سے نہ بولتے، ان کی بیوی کلیم صاحب کی چچی تھیں۔ وہ بھی کم سخنی اور کم آمیزی میں اپنے شوہر کا جواب تھیں۔ میں بیوی میں بہت پیار تھا۔
پھر یوں ہوا کہ کلیم صاحب کی چچی بیمار پڑیں، چچا ملازمت پر تھے، چند ہی روز میں حالت بگڑ گئی، خبر بھی نہ جا سکی اور وہ چل بسیں۔
تین چار روز بعد کبیر صاحب آئے، کلیم احمد عاجز کو اچھی طرح یاد تھا کہ ان کے چچا یکنگر کے اسٹیشن سے سائکل پر آئے تھے، گھر کے دروازے تک سائکل تھامے چلتے آئے، کسی کی بات کا، مزاج پرسی کا کوئی جواب نہیں دیا، ساتھ میں کوئی سامان نہ تھا، مع سائکل گھر کے اندر داخل ہوئے، کلیم صاحب کی بہنیں، چچا کی لڑکیاں گھر میں تھیں، ان کے دروازے میں داخل ہوتے ہی ایک بار سب چیخ کر رو پڑیں، کبیر چچا
ایسے مہین ریشمی انسان جن کی آواز بھی کم سنی جاتی تھی، اتنے زور سے ڈپٹ پڑے کہ سب کو سکتہ ہو گیا۔ سائکل سائبان تلے کھڑی کی، جس حال میں، جس لباس میں تھے اسی کمرے میں داخل ہوئے جس میں ان کی بیوی رہتی تھیں، دو بار گھوم کر کمرے کا جائزہ لیا، پھر اس پلنگ کے پاس آئے جس پر چچی سوتی تھیں، دیر تک سرہانے خاموش کھڑے رہے، پھر بیٹھ گئے اور چند ہی منٹ بعد پلنگ پر لیٹ رہے۔۔۔۔۔ تمام دن کسی سے کچھ نہ بولے، قریب آنے والوں کو آہستگی سے چمکار کر واپس بھیجتے رہے
اگلے روز اسی پلنگ سے ان کا بھی جنازہ اٹھا!
رہے نام اللہ کا!
علی گڑھ کی تربیت گاہ اول۔ محمد عشرت حسین
02- علی گڑھ کی تربیت گاہ
مصنف: محمد عشرت حسین
صفحات: 159
ناشر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، کراچی
سن اشاعت: اکتوبر 1996
داستان کمال۔ سید کمال
03- داستان کمال (فلمی اداکار سید کمال)
خودنوشت
تحریر: سید کمال
سن اشاعت: 1998
مقام اشاعت: کراچی
صفحات: 167
مصنف نے یکم جولائی 2005 کو اپنے دستخط سے یہ نسخہ کسی امان اللہ خاں کی خدمت میں خلوص کے ساتھ پیش کیا تھا۔۔۔۔
آج مورخہ 4 ستمبر 2011 کے روز مصنف کے خلوص کی قیمت لگی، مبلغ 50 روپے!
دلی جو ایک شہر تھا۔ ملا واحدی
04- دلی جو ایک شہر تھا-یادگار لوگ، ناقابل فراموش باتیں
مصنف: ملا واحدی
ناشر: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
سن اشاعت: 2003
صفحات: 196
سو وہ بھی ہے آدمی
05- سو وہ بھی ہے آدمی
اخباری کالمز کا مجموعہ
مصائب و آلام میں گھرے عام انسانوں کی داستانیں
سن اشاعت: 2002
ناشر: منشورات، لاہور
مجھولی کا آدم خور تیندوا
6-مجھولی کا آدم خور تیندوا
شکاریات
طابع: ڈاکٹر اعجاز حسین قریشی
ناشر: مکتبہ اردو ڈائجسٹ، لاہور
سن اشاعت: 1991
صفحات: 318
٭٭٭
کتابوں کا اتوار بازار۔ 29 جنوری 2012۔ کچھ احوال بازار کا
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
لیکن صاحب، اس کا ہر اتوار صدر کراچی کی ایک گلی میں برسنا ہی غنیمت ہے کہ طلبگاران کتب کی کچھ اشک شوئی تو اس طرح ہو ہی جاتی ہے۔
کتابوں کے اتوار بازار میں آج حسب معمول ملاقات ہوئی اپنے دوست امین ہاشم سے۔ یہ 1987 سے اس بازار میں آرہے ہیں۔ چاہے کچھ بھی ہو، کیسے بھی حالات کیوں نہ رہے ہوں، امین کا آنا طے ہے:
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
ہم ایک جانب کھڑے ہو گئے، بات چل نکلی اتوار بازار کی تو کئی نئی باتیں سننے کو ملیں، معلومات میں اضافہ ہوا۔ کراچی صدر کے علاقے ریگل چوک سے متصل ایک گلی میں یہ بازار لگتا ہے لیکن کب سے ؟ اس کا جواب امین ہاشم نے دیا:
"کوئی آٹھ دس برس ہوئے ہیں، اس سے قبل یہ مرکزی سڑک پر ہی لگا کرتا تھا اور غالباً سن پچاس کی دہائی کے اواخر سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔ ”
’مرکزی سڑک سے گلی میں اٹھ آنے کی کیا وجہ ہوئی، یوں اٹھے آج اس گلی سے ہم والی بات تو نہ ہوئی ہو گی کہ سڑک سے گلی میں آئے تھے‘ میرا سوال تھا
امین بتانے لگے:
” بازار سڑک پر سجا کرتا تھا اور وہ علاقہ پریڈی تھانے کی حدود میں آتا ہے، ایک روز با اثر دکانداروں نے تھانے دار کو ساتھ ملایا اور عذر پیش کیا کہ ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہے”
‘ اتوار کے روز بھی‘ ؟
” جی زبردست کا ٹھینگا سر پر” امین بولے ”
‘ پھر کیا ہوا‘ ؟
"پھر یہ ہوا کہ ایک سڑک سے اٹھ کر یہاں گلی میں آنے سے یہ ہوا کہ تھانے کی حدود بدل گئی، یہ گلی کینٹونمنٹ کی حدود میں آتی ہے اور پھر یہاں کے دکانداروں نے کوئی اعتراض نہ کیا تو یہ یہاں جم گئے”
’میں (راقم) نے پولیس کو بھی آتے دیکھا ہے، یہ کیا معاملہ ہے‘ ؟ میرا سوال تھا
امین بتانے لگے: ” اس کی بھی سن لیجیے، پولیس یہاں سے بھتہ لیتی ہے اور بعض اوقات تو دو علاحدہ علاحدہ پولیس موبائلز بھتہ لینے پہنچ جاتی ہیں۔ ایک بندہ ہے یہاں (انہوں نے ایک آشنا چہرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہ اس کا کام ہے، پیسے جمع کرتا ہے اور تھانے والوں کو پیش کرتا ہے۔ ایک مرتبہ تو یہ بھی پھنس گیا تھا۔ ہوا یہ کہ ایک تھانے کو پیسے دے کر ہٹا تو دوسرے تھانے کے ایس ایچ او نے اسے طلب کر لیا اور الزام لگایا کہ تم صدر کے دکانداروں سے بھتہ جمع کرتے ہو۔ اس غریب نے پریشان ہو کر کہا کہ حضور وہ جمع کر کے آپ لوگوں ہی کو تو پہنچاتا ہوں۔ یہ کہنا غضب ہو گیا، تھانے دار نے ایف آئی آر درج کرنے کی دھمکی دی، بڑی مشکل سے بیس ہزار دے کر جان چھڑائی۔ ”
سن 1987 سے یہاں باقاعدگی سے آنے والوں میں اب کو ئی چہرہ نظر آتا ہے ؟ میں نے امین ہاشم سے سوال کیا
امین کہنے لگے "ایک تو جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ظفر اقبال ہیں، پھر پروفیسر سحر انصاری ہیں جو اب کبھی کبھی آتے ہیں، ایک صاحب تھے قمر سہارنپوری، وہ بلا ناغہ آتے تھے لیکن ان دنوں بہت بیمار رہنے لگے ہیں۔
کتب فروشوں میں ایک ایسی شخصیت ہے جس کے ذکر کے بغیر اس بازار کا تذکرہ نامکمل سمجھا جائے گا، ان کا نام ماسٹر اقبال تھا، وضع قطع بالکل مرزا غالب جیسی، وہی کھڑی ٹوپی، پاجامہ اور کبھی کبھی شیروانی بھی زیب تن کرتے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب انہوں نے صدر کے کریم سینٹر میں کتابوں کی دکان بھی کھولی تھی جو چلی نہیں، اور گھاٹے میں بند کرنی پڑی، ماسٹر اقبال گاہک کے حساب (گاہک کی ظاہری وضع دیکھ کر) سے کتاب کی قیمت لگاتے تھے۔ ماسٹر اقبال زمانہ ہوا انتقال کر چکے ہیں”
سن اسی کی دہائی میں امین ہاشم کی تنخواہ 2000 روپے تھی، ایک روز انہیں خطبات عالیہ تین جلدوں میں نظر آئی، 600 روپے کی رقم 2000 کمانے والے کے لیے خطیر تھی، امین ان دنوں سائیکل پر آیا کرتے تھے، قیمت سن کر ان کے ہوش اڑ گئے، خاموشی سے واپس جانے لگے تو ماسٹر اقبال نے ان کی سائیکل کا پچھلا حصہ تھام کر روک لیا اور کہا کہ لے جائیے یہ کتابیں، آ جائیں گے پیسے بھی۔
اور اب ؟
اب تو یہ حال ہے کہ پرانے کتب فروش چل بسے، ان کی اولاد میں کچھ باقی رہ گئے ہیں بقول امین ہاشم جن کی آنکھوں میں ابھی بھی کچھ شرم باقی ہے۔ باقی یہ حال ہے کہ بھاؤ تاؤ کرنے والے گاہکوں کی لاف گزاف سے بازار کے سب سے با اثر کتب فروش کو اکثر تاؤ آ جایا کرتا ہے اور وہ کھڑے گھاٹ گاہک کی بے عزتی بھی کرتے دیکھا گیا ہے۔ اسی کتب فروش کے پاس راقم نے آج صبح ایک تھیلا دیکھا جس پر گاڑھی سیاہی والے قلم سے لفظ "ڈاکٹر” لکھا تھا۔ ایک صاحب نے کتب فروش سے اس تھیلے کو کھولنے کی درخواست کی جو اس نے نخوت سے رد کر دی۔
یہ عُقدہ بھی امین ہاشم نے کھولا، معلوم ہو ا کہ ایک ڈاکٹر صاحب ہیں جو تین ماہ سے کتابوں کے بازار میں آرہے ہیں :
وہ آیا، اس نے دیکھا اور دوسروں کا بیڑہ غرق کر دیا
ڈاکٹر صاحب کتاب کی منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں، کتب فروش نے ان کو تاک لیا ہے، وہ سو روپے کی کتاب کے تین سو روپے طلب کرتا ہے اور ڈاکٹر صاحب قبلہ فراغ دلی سے ادائیگی کر دیتے ہیں، ہوتے ہوتے یہ نوبت آن پہنچی ہے کہ کتابوں کا کم از کم ایک بورا تو ایسا ہوتا ہے کہ جو ڈاکٹر صاحب کی آمد پر ہی کھلتا ہے، وہ اپنی پسند کی کتابیں چھانٹتے ہیں، پھر باری کے انتظار میں کھڑے دوسرے مسکین عُشاق، بُتوں سے بچا کھچا فیض پاتے ہیں۔
‘اور اگر ڈاکٹر نہ آئیں تو ؟ ‘
” تو بورا نہیں کھلتا اور اسے کتب فروش واپس لے جاتا ہے، بھیا! وہ تو ایسے ہیں کہ ایک مرتبہ برملا کہتے سنے گئے کہ میرے پاس پیسہ ہے اور میں اس کی مدد سے کچھ بھی خرید سکتا ہوں ” امین نے انکشاف کیا۔
شنید یہ بھی ہے کہ اب ڈاکٹر صاحب کے جوش جنوں میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ شاید ان کے مریض کچھ ہشیار ہو گئے ہوں گے، لیکن دوسرے گاہکوں کو جو نقصان پہنچنا تھا، وہ تو پہنچا۔
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
آج ہمارے محترم دوست عادل حسن بھی بازار میں جلوہ افروز تھے۔ 10 فروری کو ان کے نانا جناب قیسی رامپوری کی برسی آ رہی ہے۔ احباب سے وہ پہلے ہی درخواست کر چکے ہیں کہ کسی کے پاس ان کے نانا سے متعلق اگر کوئی تحریر ہو تو اسے اس روز بزم قلم پر شامل کریں۔ ذیل میں درج فہرست کتب میں شامل ‘اردو کتابوں کی ڈائرکٹری‘ بھی بھائی عادل نے کمال محبت سے ہمیں خرید کر پیش کی۔
کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے:
چہرے
خاکوں کا مجموعہ
شورش کاشمیری
ناشر: مکتبہ ماحول لاہور
سن اشاعت: 1965
صفحات: 272
کچھ یادیں
یادداشتیں
محمد مظہر بقا
ناشر: بقا پرنٹر اینڈ پبلشر کراچی
سن اشاعت: 1996
صفحات: 166
لاہور کا جو ذکر کیا
آپ بیتی
گوپال متل
ناشر: مکتبہ اردو ادب، لاہور
سن اشاعت: 1985
صفحات: 128
راہی اور راہ نما
خاکوں نا مجموعہ
سید الطاف علی بریلوی
ناشر: اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ، کراچی
سن اشاعت: 1964
صفحات: 265
تخلیقی ادب
مدیر مشفق خواجہ
شمارہ نمبر 2
سن اشاعت: 1980
صفحات: 568
اردو کتابوں کی ڈائرکٹری
سالنامہ کتاب لاہور
اکتوبر-نومبر 1968
نگران: ابن انشاء۔، مدیر: سید قاسم محمود۔ نائب مدیر: صفدر ادیب
صفحات: 1104
٭٭٭
کتابوں کا اتوار بازار-5 فروری 2012
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا
آج بروز اتوار 5 فروری 2012، میں علی الصبح چھ بجے بھاپ اڑاتی کافی کا پیالہ ہاتھ میں تھامے ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا، خیال آیا کہ اتوار بازار روانگی سے قبل کچھ حالات کا جائزہ لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول کی وجہ سے کتب فروشوں کی آمد مشکل نظر آ رہی تھی۔ لیکن صاحب سب کے سب نہ سہی، چار عدد تو آئے۔
ٹی وی چینل پر قرضوں میں جکڑی ہوئی قوم پر گیس، پیٹرول اور ڈالر کے نرخوں میں حالیہ اضافے پر بات کی جا رہی تھی۔ ہم تو یوں بھی منتظر ہیں کہ دیکھیے پیٹرول، ڈالر اور ٹنڈلکر میں سے کون سب سے پہلے 100کا ہندسہ عبور کرتا ہے ؟
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دست ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا
ٹی وی بند کیا اور سوچا کہ ای میل اور فیس بک کا جائزہ لیا جائے
فیس بک پر تو عابدہ رحمانی صاحبہ نے ایک دلچسپ مضمون بھی بزم پر شامل کیا ہے۔ موبائل فون کے آنے کے بعد تو احباب اب چوبیس گھنٹے اس کی پہنچ میں رہتے ہیں۔
نوبت بہ ایں رسید کہ ایک صاحب کی بیگم کا انتقال ہوا، اداس بیٹھے تھے، آنسو جاری تھے، ان کے ایک بے تکلف دوست نے ان کو چپ کرانے کے بعد از راہ ہمدردی دریافت کیا:
” تجھے کچھ چاہیے ؟ ”
” لیپ ٹاپ لا دے ” ان صاحب نے کہا
” لیپ ٹاپ، وہ کیوں ؟ ” دوست نے حیرت سے پوچھا
” فیس بک پر اسٹیٹس تو سنگل کر دوں ”
ایک کرم فرما کا کا ارسال کردہ پیغام پڑھ کر رہی سہی کسر پوری ہوئی, خبر سکرین پر جگمگا رہی تھی:
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے صدر شعبہ اردو کی پی ایچ ڈی کی ڈگری جعلی۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر شفیق عجمی صاحب نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا، موضوع تھا "علامہ اقبال اور ڈاکٹر محمد رفیع الدین”
دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کے ایم فل کے مقالے کا موضوع بھی من و عن یہی تھا۔ خبر میں لکھا تھا کہ:
"کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ برصغیر کی معروف درسگاہ کا صدر ایک ہی مقالے پر دو مختلف یونیورسٹیوں سے دو الگ الگ ڈگریاں بھی حاصل کر سکتا ہے۔ ایم فل کے مقالے کو پی ایچ ڈی کے مقالے میں شامل کر دیا، تحقیق بھی وہی رہی اور تحقیقی نتائج بھی بھی ایم فل والے ہی رہے۔ ”
کالج کے ایک پرانے طالب علم نے یہ راز فاش کیا اور ساتھ ہی اس کے ثبوت بھی انٹرنیٹ (فیس بک وغیرہ) پر جاری کر دیے۔ ضروریات زندگی میں ہوش ربا اضافہ کرتے حکمران اب اتنے برے نہیں لگ رہے تھے!
———-
اتوار بازار کی گلی میں ہوا سرد تھی، محض چار کتب فروشوں کی موجودگی دیکھ کر قریب تھا کہ خالی ہاتھ لوٹ جاتا کہ ایک جانب سے آواز آئی:
” چھوٹے! یہ دو بورے اردو کے ہیں، ان کو ابھی مت کھولیو”
یہ وہ کتب فروش ہے جو ارزاں نرخوں پر کتابیں فروخت کرنا ہے، دوسرے لفظوں میں گاہک اور دکاندار، دونوں کے لیے یہ ایک
Win-Win Situation
ہوتی ہے۔ ہمارے دوست امین ہاشم نے کچھ بحث کے بعد اسے بورے کھولنے پر قائل کر ہی لیا۔ کتب فروش کا ‘چھوٹا‘ استاد کی جانب سے اجازت ملنے پر ہاتھ میں ایک چاقو تھامے لپک کر سڑک کی دوسری جانب ہماری طرف پہنچا. ہمارا یہ چھوٹا اپنے استاد کا بیٹا ہی تو ہے، عمر آٹھ نو برس رہی ہو گی، بازار میں اور بھی ایسے ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں بلکہ بعض تو پانچ پانچ سال کے بچوں کو اپنے ہمراہ لاتے ہیں۔ یہ بچے بھی اپنے والد کے ہمراہ تمام دن یہاں گزارتے ہیں، گلی کے کونے پر کھڑے چنے والے سے چنوں کا سالن اور نان لے کر کھاتے ہیں، جس روز والد کا کاروبار زیادہ چمکے، اس روز چنے اور چاولوں کی عیاشی طے ہے! یہ چنے والا بھی خوب ہے، ہاتھ میں ذائقہ ہے، خاکسار اکثر اس کے پکوان سے لطف اندوز ہوتا ہے، چنے والے کے ہاتھ کا ذائقہ اور اس کے چہرے کا رنگ، دونوں اس وقت پھیکے پڑ جاتے ہیں جب پولیس والے ادھر آ نکلتے ہیں، ان سے پیسوں کا تقاضہ کرنا تو عبث ہے، خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔
بلآخر بورے کھل ہی گئے۔
دس کتابیں ہاتھ لگیں اور محض چار سو روپوں کے عوض، بازار کے سب سے شاطر کتب فروش کے پاس ان کی قیمت کم از کم ایک ہزار ہوتی۔ ہمارا یہ شاطر کتب فروش ایسا معاملہ فہم کاروباری شخص ہے کہ صبح صبح دیگر کتب فروشوں سے بھی ان کی کتابیں رعایتی نرخوں پر خریدتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اپنے اسٹال پر دوگنی قیمت کے ساتھ فروخت کرتا ہے۔
امین ہاشم ایک ایک کر کے کتابوں کو اٹھاتے جاتے، پہلا حق ان کا بنا، بعد میں میری اور معراج جامی صاحب کی باری آئی۔ میری تحریک پر امین ہاشم نے اس بازار سے متعلق اپنی یادوں کو لکھ کر مجھے سونپنے کا وعدہ کیا ہے۔
کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے:
حدیث دلبراں
خاکوں اور یادداشتوں کا مرکب۔ بہار یار جنگ، مولانا مودودی، محمد عمر مہاجر، ماہر القاردی، فضل گلبرگوی، راز مراد آبادی، مسٹر دہلوی۔ سید صبیح محسن وغیرہ کے تذکرے شامل ہیں
مصنف: مسعود جاوید
ناشر: نکہت پرنٹر، کراچی
سن اشاعت: 1993
صفحات: 210
مسعود جاوید 11 جولائی 1925 کو بلدہ (دکن کے اطراف کا ایک گاؤں ) میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد کراچی کو مسکن بنایا۔ ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
مائی باپ
علی گڑھ کی یادداشتیں
مصنف: محمد ذاکر علی خان
ناشر: سر سید یونیورسٹی پریس، کراچی
سن اشاعت: 2002
صفحات: 316
مرد آہن
پاکستان اسٹیل مل کے سربراہ حق نواز اختر کی آپ بیتی
مرتبہ: عبادت اللہ خان
ناشر” دانیال اکیڈمی، کراچی
سن اشاعت: 2006
صفحات: 335
وعلیکم السلام
مزاحیہ شاعری-غزلیات اور دیگر منظومات
مرتبہ: امیر السلام ہاشمی
ناشر: بزم نشور شعبہ تصنیف و تالیف کراچی
سن اشاعت: 1994
صفحات: 160
کہہ گیا ہوں ہنسی میں کیا کیا کچھ
مجھ کو سمجھے خدا کرے کوئی
وہ آئیں گھر میں ہمارے
خاکوں کا مجموعہ
کتاب میں ندیم قاسمی، پروفیسر عزیز احمد، فیض، پروفیسر ممتاز حسین، علی سردار جعفری، رئیس امروہوی، صہبا لکھنوی، حمایت علی شاعر کے خاکے شامل ہیں !
مصنف: عبد القوی ضیاء علیگ
ناشر: بزم تخلیق ادب کراچی
سن اشاعت: 1997
صفحات: 224
انجم اعظمی-حیات اور ادبی خدمات
مرتبہ: ڈاکٹر مشرف احمد
ناشر: کراچی رائٹرز ایسوسی ایشن، کراچی
سن اشاعت: 1997
صفحات: 338
گوشے اور جالے
احمد صغیر صدیقی کی متفرق تحریریں
ناشر: کتابیات پبلیکیشنز کراچی
سن اشاعت: 2002
صفحات: 160
حکیم احمد شجاع اور ان کا فن
مصنف: ڈاکٹر اے بی اشرف
ناشر: ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی
سن اشاعت: 1987
صفحات: 296
پھولوں کے گیت
بچوں کے لیے اختر شیرانی کی نظمیں
مرتبہ: ڈاکٹر یونس حسنی
ناشر: ندیم بک ہاؤس۔ لاہور
سن اشاعت: 1993
سوانح حیات-مولانا اللہ بخش سومرو
مرتبہ: پروفیسر میر محمد مقبول سومرو
مصنف نے کراچی سے شائع کروائی
سن اشاعت: 2009
صفحات: 167
سہ ماہی تجدید نو-لاہور
مدیر: عذرا اصغر اور شبہ طراز
آغا سہیل نمبر
اپریل تا جون 2009
صفحات: 272
زیست کراچی اور نیا ورق ممبئی کے دو شمارے
٭٭٭
فتوحات اتوار بازار۔بیان م حسن لطیفی و ظفر اقبال کا
یکم اپریل۔ ۲۰۱۲
شہر کراچی کے حالات کے برعکس پرانی کتابوں کا اتوار بازار حسب معمول مہربان رہا، احباب صبح صبح پہنچ جاتے ہیں، ایک دوسرے کو کتابوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے، بازار میں رکھی کوئی کتاب کسی ایک کے پاس پہلے سے موجود ہو تو دوسرے کو اسے خریدنے کا مشورہ دیتے ہوئے، کسی دوسرے کو درکار کتاب فراغ دلی سے فوٹو کاپی یا اسکیننگ کے لیے فراہم کرتے ہوئے۔ گھر سے نکلا تو رستے میں عابدہ رحمانی صاحبہ یاد آئیں جنہوں نے مہینہ بھر قبل بزم قلم پر شامل کی گئی ایک روداد کے جواب میں کہا تھا کہ بھارت میں ٹنڈلکر اور پاکستان میں پیٹرول اور ڈالر سو کا ہندسہ عبور کر جائے تو آگاہ کرنا۔ اب انتظار ڈالر کا ہے کہ بقیہ دو تو منزل پر پہنچ کر شاد ہوئے ہیں لیکن دم پھر بھی نہیں لیا، مزید آگے جانے کا ادارہ رکھتے ہیں۔ علی گڑھ سے کراچی آئی پروفیسر صاحبہ آج صبح عازم وطن ہوئیں، ان کے قیام کے دوران کراچی کے حالات اچھے نہ رہے، پروفیسر صاحبہ کے ارادوں میں کھنڈت پڑتی رہی، ادھر میں فون پر ان کی ڈھارس بندھاتا تھا کہ یہ تو ’معمول‘ کی بات ہے، ہمارے لیے تو اسے معمول بنے کئی برس گزر چکے ہیں۔ حضرت صبا اکبر آبادی نے برسوں پہلے شعر کہا تھا :
یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں
اہل کراچی تمام تر خدشوں کے باوجود اپنے کام بدستور کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔
اس مرتبہ ایک بہت کمال کی کتاب ہاتھ لگی ہے، یہ ہے ” ناصر کاظمی۔ایک دھیان”مصنف: شیخ صلاح الدین، انیس سو بیاسی میں شائع ہوئی تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی تھی، اس کا ذکر بہت سنا تھا۔” ناصر کاظمی۔ایک دھیان” یاد نگاری کا بہترین مرقع ہے، شیخ صاحب نے موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔کتاب کو احباب کے لیے اسکین کر رہا ہوں، بزم پر حجم کی حد مقرر ہونے کے سبب اسے پیش کرنے میں دقت ہوگی، ایک ممکنہ طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ احباب کے ’برقی آڈرز‘ موصول ہوں اور کتاب جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر روانہ کر دی جائے۔یاد رہے کہ محدود تعداد میں کاپیاں ہونے کے سبب پہلے آئیے اور پہلے پائیے کے زریں اصول پر عمل کیا جائے گا لہذا اپنے آرڈرز ابھی سے بک کرا لیجیے۔
ناصر کاظمی پر بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں، ایک حالیہ ملاقات میں ہم نے یہ گلہ انتظار حسین صاحب سے کیا کہ ان کی خودنوشت چراغوں کا دھواں میں ناصر کاظمی کا ذکر دلنواز ہے تو سہی لیکن ایک تشنگی پھر بھی باقی رہ گئی ہے۔انتظار صاحب نے انکشاف کیا کہ وہ ان دنوں اپنے عزیز از جان دوست ناصر کاظمی پر ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہیں۔
” ناصر کاظمی۔ایک دھیان” کے مصنف شیخ صلاح الدین کا ذکر چراغوں کا دھواں میں انتظار صاحب نے بھی کیا ہے:
آ شیخ صلاح الدین
جا شیخ صلاح الدین
پنجابی میں وہ بولا
پا شیخ صلاح الدین
مذکورہ تک بندی حفیظ ہوشیار پوری کے ذوق سخن کا نتیجہ ہے جو ہر کس و ناکس کو دیکھتے ہی رواں ہوجاتے تھے، مبارک احمد پر نظر پڑی تو پکار اٹھے
:
اس کی خالہ کا ہو خدا حافظ
جس کا خالو ہے مبارک احمد
صفدر میر کو دیکھا تو شعر موزوں کیا:
دیکھیو نہ رہ جائے کوئی در کھلا
پھر رہا ہے شہر میں صفدر کھلا
ان دنوں ذکر حضرت ظفر اقبال کا ہے، کراچی کے ادبی پرچے مکالمہ میں ’میر کے تاج محل کا ملبہ ‘ لکھ کر تو آپ پہلے سے زیادہ مشہور ہو گئے ہیں۔ اکثر یہ دیکھا ہے جس کسی کتاب ہا معلومات کی جب جب بھی خصوصیت سے ضرورت پڑی، انہی دنوں میں اتوار بازار سے مطلوبہ کتاب مل گئی۔کچھ ایسا ہی اس بار بھی ہوا جب حضرت ظفر اقبال کا شعری مجموعہ ’ رطب و یابس‘ اتوار بازار میں رکھا نظر آیا۔ کتاب کے فلیپ پر بانو قدسیہ کا تبصرہ موجود ہے۔ بانو قدسیہ کا کہنا ہے کہ ’’ظفر اقبال کی شاعری دراصل ایک خوبصورت بٹن کی مانند ہے، ایک ایسا بٹن جو لنڈے کے پرانے کوٹ سے اتار کر شہر کی سب سے دیدہ زیب عورت اپنے چمڑے کے چمکیلے کوٹ میں ٹانک لے‘، اس بٹن میں چار سوراخ ہیں اور تمنا کی ابتری کا مضبوط دھاگہ‘، بٹن کے ایک سوراخ میں اس کے زبان کے تجربات ہیں، دوسرے سوراخ سے گھروں کے اندر جھانکا جا سکتا ہے، تیسرے سوراخ سے گلابی مزاح کی دھوپ جھلکتی ہے اور چوتھا سوراخ بہت مہیب اور غم دیدہ ہے
سبحان اللہ۔۔۔ بانو آپا، آپ کے کیا کہنے۔۔۔ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے تو آپ پر اور اشفاق صاحب پر جان چھڑکتے ہیں۔۔۔ یہ بھی تو سوچیے کہ حضرت ظفر اقبال کی شاعری پڑھنے کے بعد ان کے بے بس و بے کس قاری کے سر میں جتنے سوراخ ہوئے ہیں ان کا مداوا کرنے والا کون ہے….
شہر کی سب سے دیدہ زیب عورت حضرت کی شاعری کا بٹن اپنے کوٹ میں جب بھی ٹانکے گی، گمان ہے کہ اسکا کوٹ چمکیلا ہرگز نہیں رہے گا، ہمیں تو آپ کا بیان کردہ دھاگہ تمنا کی ابتری کا کم اور تمنا کی افراتفری کا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ رہا سوال چوتھے سوراخ کا جو آپ کا الفاظ میں "بہت مہیب اور غم دیدہ ہے‘‘، تو عرض یہ ہے کہ یہی چوتھا سوراخ حضرت کی شاعری میں نمایاں اور بڑا نظر آتا ہے اور بعض نقادوں کی نظر میں سوراخ مذکورہ سے جناب شاعر کی شاعری اسی مہیب خلا میں جا گری ہے جس کا ذکر آپ کر چکی ہیں، رہ گئی غم دیدگی کی بات تو اس کے متاثرین میں جناب شاعر نہیں بلکہ ان کا قاری شامل ہے۔ ذرا غور سے دیکھیے، خوف کی الٹی لٹکی چمگادڑوں ہی کے آس پاس جناب شاعر کا قاری بھی خوف سے سہما الٹا لٹکا نظر آئے گا۔
فلیپ لکھنا تو ایک فیشن بن گیا ہے، ہندوستان کے ایک بہت پڑھے لکھے شخص نے آخری عمر میں کہا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اب تک کتابوں پر جتنے بھی فلیپ لکھے ہیں، میں ان سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہوں۔ ذرا ملاحظہ تو کیجیے کہ کتاب میں دھرا کیا ہے :
ستر پوشی ہے قافیہ بندی
ہاں ذرا کس کے باندھیے شلوار….
سوچیے شعر کا نیا کوئی کوڈ
ساتھ چلتا نہیں ہے یہ بھی موڈ….
دھوپ سے کچھ بچاؤ رہتا ہے
سر پہ رکھتے ہیں شاعری کا ٹوپ
….
خیر آپ بھی بدمعاش ہوں گے
میں ہوں ذرا مختلف لفنگا
……
میں اتنا بدمعاش نہیں یعنی کھل کے بیٹھ
چبھنے لگی ہے دھوپ، سوئٹر اتار دے
…..
بانو قدسیہ اکیلی ہی نہیں ہیں، انیس ناگی بھی کمر کس کے ان کی مدد کو پہنچے تھے، کیوں نہ آتے کہ اپنے پرچے ’دانش ور ‘میں ظفر اقبال کی ’غزلاں‘ جو شائع کرتے تھے۔خامہ بگوش نے دانش ور میں چھپی ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار استاد لاغر مراد آبادی کو سنائے تھے:
جو آن کے ہمسائے ہمارے میں ر ہیں گا
تحقیق کہ وہ خود ہی خسارے میں رہیں گا
اس گھر کی بناوٹ ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ شوخ
ایک بار رہیں گا تو دوبارے میں رہیں گا
اور استاد گرامی نے یہ شعر سن کر فی البدیہہ فرمایا تھا:
ناگی نے جو چھاپیں ظفر اقبا ل کی غزلاں
جو ان کو پڑھیں گا وہ خسارے میں رہیں گا
اپنے قارئین کے لیے ہم نے ’رطب و یابس ‘ سے کچھ ’نمونے‘ پیش کیے ہیں، اب ملاحظہ کیجیے کہ انیس ناگی نے کتاب مذکورہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے کیا ارشاد فرمایا ہے
۔ظفر اقبال نے لفظ اور شے کا جو ربط دریافت کیا ہے اس کی بنیاد شخصی بو العجبی کے بجائے ایک تہذیبی تناظر سے دوسرے تہذیبی تناظر کی طرف روانگی کا سفر ہے
۔ ظفر اقبال نے الفاظ کے عمومی رشتوں سے انقطاع کے ذریعے اپنی اپنی انفرادیت کا نقش قائم کیا ہے۔
۔ظفر اقبال نے ہمیں اپنے آپ کو اتنے قریب سے دکھایا ہے کہ خود اپنا وجود دیکھ کر گھن آتی ہے۔
۔رطب و یابس میں ظفر اقبال کا اردو غزل کی روایت کے بارے میں گہرا شعور جھانکتا ہے۔
۔ظفر اقبال نے غزل کے لسانی اسلوب میں ممنوعات کے استعمال سے گھٹن کی فضا کو ختم کیا ہے۔
۔اقبال کے بعد کی اردو غزل موضوعاتی اعتبار سے ڈانواں ڈول نظر آتی ہے، اس کی بے ہیئتی کو ظفر اقبال نے ایک طرح کا تیقن دیا ہے۔
۔رطب و یابس کے بغیر جدید غزل کا تصور تشنہ رہتا ہے۔
انیس ناگی بلکہ حضرت انیس ناگی اور بانو قدسیہ نے زیر موضوع کتاب کے تعریف میں جو نکات بیان کیے ہیں،ان کو پڑھنے اور بعد ازاں یہاں درج کرنے کے دوران ہمیں ایک مرتبہ پھر اپنی سخن فہمی پر شبہ سا ہونے لگا، اس شبے کو رفع کرنے کی غرض سے جی کڑا کر کے ایک مرتبہ پھر ’رطب و یابس ‘ پر ایک یاس بھری نظر دوڑائی، جو آبدار موتی ہاتھ لگے، پیش خدمت ہیں
:
امید فصل ہو بنجر، قدیم بیویوں سے کیا
گھروں کو چھوڑیے اور کھیت میں غلہ اگائیے….
کچھ ترے بھائیوں نے مار رکھا
کچھ پڑیں اپنے گھر سے بھی ڈانگیں
روکو تو ہم کریں گے دنگا
بن جائے گا بات کا بتنگا
…
میں ہوں، ظفر، اوکاڑہ ہے اور خوف کی خوش بو
دشمن ہے تو پنڈی سے بھی آ مجھ کو ملے گا
…
جس نے چوری کی تھی سو پچاس پر چھوڑا اسے
جو سڑک پر جا رہا تھا اس کو اندر کر دیا…
ٹانگیں توڑی ہیں ڈاکوؤں نے
سر میں بھی کھلا ہوا ہے کھپا…
دی ہیں یہ گاجریں خدا نے
رکھ ہاتھ میں صبح و شام رمبا
سو میل ابھی پڑا ہے ملتان
ملتان سے آگے ہے تلمبا
…..
خصی ہوں خیال و خواب جن کے
دل کیوں نہ ہو ان کا بے امنگا
……
دیر ہو جائے گی، نہا لیں اب
حسرتوں کا بھرا رکھا ہے ٹب
…..
پلِے ہی، ظفر، ہیں اس طرح کے
کتُیا تو نہیں تھی ڈب کھڑبی
……
مندرجہ بالا اشعار کو پڑھنے کے بعد ہم اپنے قارئین سے رطب و یابس کے متعلق انیس ناگی اور بانو قدسیہ کے ارشادات کو دوبارہ پڑھنے کی استدعا کریں گے۔ آخر میں رطب و یابس میں درج حضرت ظفر اقبال کے اس شعر پر یہ تذکرہ ختم سمجھا جائے:
خاتم الشعراء ہمیں مانیں نہ مانیں وہ، ظفر
شاعری کے دین کو ہم نے مکمل کر دیا
فتوحات اتوار بازار میں ایک کتاب لطیفیات (جلد اول و دوم)بھی شامل ہے۔اس کے مصنف اردو کے دانشور، صحافی، شاعر م حسن لطیفی ہیں۔ لطیفیات ان کی شاعری کا مجموعہ ہے جو سن انیس سو اٹھاسی میں لاہور سے شائع ہوا تھا۔ لطیفیات کی جلد اول یکم جولائی 1928 کو رفیقِ عام پریس لاہور سے شائع ہوئی تھی جبکہ جلد دوم یکم فروری 1935 کو شاطو پریس، لدھیانہ سے شائع ہوئی۔ م حسن لطیفی ہفت روزہ مطالعہ مرتب کرتے تھے اور سارا پرچہ اول تا آخر خود تحریر کرتے تھے۔ بقول صادق الخیری ’ ’ان کا اخبار سولو جرنلزم کا پہلا اور آخری پرچہ تھا، جدید آزاد نظم کے پیش روؤں میں ڈاکٹر تصدق حسین خالد اور ن م راشد کا نام آتا ہے مگر م حسن لطیفی نے بہت پہلے اور بڑے اہتمام سے اس صنف کو روشناس کرایا تھا۔‘‘
آج سے 83 سال قبل م حسن لطیفی (محمد حسن لطیفی) نے ایک شعر کہا تھا جو ’ناتمام غزل ‘کے عنوان کے تحت علی گڑھ میگزین میں جنوری 1929 میں اور لدھیانہ کے جریدہ مطالعہ کے 28 اکتوبر 1933 کے شمارے میں شائع ہوا۔ شعر زبان زد عام ہوا اور آج بھی ہے:
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا ہوا جو مجھ کو فراموش کر دیا
ناتمام غزل کے مزید اشعار ملاحظہ ہوں:
مضراب آرزو سے ذرا دل کو اور چھیڑ
کیوں مطرب اس رباب کو خاموش کر دیا
رگ ہائے ماہتاب نے ٹپکا کے خون ناب
آسودہ موجِ بادہ کو سرِ جوش کر دیا
آیا جو نیم ہوش میں مخمورِ چشمِ مست
پھر جرعۂ نگاہ سے مدہوش کر دیا
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا ہوا جو مجھ کو فراموش کر دیا
م حسن لطیفی، قبرستان میانی صاحب میں آسودہ خاک ہیں۔ وہ لدھیانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں تو کئی ادیبوں نے ان کی پہلو دار شخصیت پر لکھا ہے جن میں جناب اے حمید نمایاں ہیں لیکن چند برس قبل شائع ہونے والی اردو کے ادیب و افسانہ نگار انتظار حسین کی خود نوشت چراغوں کا دھواں میں لطیفی صاحب کا ذکر ایک منفرد انداز میں ملتا ہے۔ لطیفی صاحب 11 دسمبر 1905 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔ یورپ سے واپسی ہر وہ اپنے ہمراہ بیس ہزار کتابیں لائے تھے۔ وہ فرانس کے ایک روزنامے
Le Petit Nicois Nice
کے پنجاب میں نمائندے تھے۔ انہیں پنجابی، اردو، فرانسیسی، انگریزی، جرمن، اطالوی، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ کئی اہم کتابوں کے علاوہ تین سو نظموں اور پچھتر انگریزی مقالات کے مصنف تھے۔16 جولائی 1930 کے انقلاب میں م حسن لطیفی،حضرت ساغر سیمابی کی ایک نظم پر تنقید کرتے ہوئے انہیں للکار بیٹھے تھے:
اے ساغر سیمابی
اچھی نہیں قصابی
تو شعر نہ لکھا کر
علم و دانش کا یہ پیکر آخری دنوں میں کسی دماغی خلل میں مبتلا ہو گیا تھا۔ لدھیانہ کے ایک صاحب حیثیت گھرانے سے تعلق رکھنے والے م حسن لطیفی صاحب آخری عمر میں لاہور کی سڑکوں پر سرگرداں نظر آتے تھے اور ایک مجنونانہ کیفیت ان پر طاری رہتی تھی۔ انتظار حسین لکھتے ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” پاک ٹی ہاؤس کا دروازہ کھلتا ہے اور ایک نرالی شخصیت نمودار ہوتی ہے۔ لمبا لگ لگ، بدن سینک، سلائی۔بر میں ہرے رنگ کا کوٹ۔گم سم۔ خاموشی سے آ کر بیٹھ جاتے ہیں
” لطیفی صاحب! چائے پیجیے گا”
ناصر کاظمی ان کا کتنا احترام کرتا تھا
"جی! اور دو توس بھی منگا لیجیے”
چائے آئی۔چائے کے ساتھ دو توس آئے۔لطیفی صاحب نے دونوں توس اٹھائے اور باہر نکل گئے۔تھوڑی دیر بعد خالی ہاتھ واپس آئے اور چائے پینی شروع کر دی۔لطیفی صاحب سے چائے کا جب بھی پوچھا گیا، انہوں نے توسوں کی فرمائش ضرور کی اور ہمیشہ یہ دیکھا گیا کہ توس آ کر رکھے گئے، اور وہ لے کر باہر نکل گئے۔ ایک روز میں (انتظار حسین) کافی ہاؤس میں اس زاویے سے بیٹھا تھا کہ میرا رخ دروازے کی طرف تھا۔ میں نے دیکھا کہ بار بار دروازے کے شیشے پر ایک کتے کی تھوتھنی نظر آتی ہے۔ میں حیران تھا کہ یہ کتا آخر کیا چاہتا ہے۔ تھوڑی دیر میں ویٹر نے پلیٹ میں دو توس لا کر رکھے۔لطیفی صاحب نے دونوں توس رومال میں لپیٹے اور باہر نکل گئے، کچھ دیر بعد واپس آئے اور ہمارے ساتھ کافی پینے لگے۔ پھر وہ کتا نظر نہیں آیا۔
لطیفی صاحب کا تعلق لدھیانہ سے تھا۔لدھیانہ کے صاحب ثروت لوگوں میں سے تھے۔تقسیم کے بعد لاہور آئے تو یہاں بے گھر، بے در ہو گئے۔آج یہاں کل وہاں۔
ایک رات آوارہ گردی کرتے کرتے بہت رات ہو گئی۔سعید ساتھ تھا۔ ہم اس کے گھر کے قریب تھے۔ ناصر کاظمی نے کہا کہ آج رات سعید کے گھر قیام کرتے ہیں۔ہم نے وہیں ڈیرا ڈال دیا۔ صبح ناشتے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ناشتے سے ابھی ہم نے فراغت حاصل نہیں حاصل کی تھی کہ لطیفی صاحب نمودار ہوئے۔انہوں نے میز پر اپنا بڑا سا رومال بچھایا اور حلوہ پوری، توس وغیرہ سب سمیٹ کر اس میں باندھا اور خاموشی سے نکل گئے۔ ہم ہکا بکا کہ یہ کیا ہوا۔۔۔۔۔اگلی شام میں اس راہ سے گزرا تو دیکھا کہ دو کتے سعید کے گھر کے گیٹ کی طرف منہ کیے کھڑے ہیں۔اسی آن لطیفی صاحب ایک بڑا سا پڑا دونوں ہاتھوں میں سنبھالے برآمد ہوئے۔ دونوں کتوں نے انہیں اپنی اداؤں سے خوش آمدید کہا۔پھر وہ برابر کی گلی میں مڑ گئے جہاں مزید کتوں نے اسی شان سے ان کا استقبال کیا۔ سعید انہیں اپنے گھر لے گیا۔ سعید محمود کا ایک شوق یہ بھی تھا کہ کسی ادیب میں جنون کے آثار دیکھتا اور وہ بے ٹھکانا ہوتا تو اسے اپنے گھر لے جاتا۔سعید کا گھر میرے (انتظار حسین) راستے میں پڑتا تھا۔صبح صبح جب میں سائکل پر سوار دفتر کے لیے روانہ ہوتا تو سعید کے گھر کے احاطے میں جو درخت تھے، ان پر چڑیوں کے غول کے غول اترتے نظر آتے۔ چڑیوں نے سخت شور مچایا ہوتا۔چند دنوں تک سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس راہ میں آخر اسی ایک گھر پر چڑیوں کی یورش کیوں ہوتی ہے۔ایک دن لان پر جو نظر گئی تو دیکھا کہ لطیفی صاحب کھڑے ہیں, ان کے دونوں کاندھوں پر چڑیاں لدی ہوئی ہیں۔ باقی کچھ درخت سے اتر اتر کر ان کے گرد پھررپھر راڑ رہی ہیں اور شور مچا رہی ہیں۔ لطیفی صاحب کے ہاتھوں میں روٹی کے ٹکڑے یا دانا دنکا قسم کی کوئی چیز ہے۔وہ اسے بکھیر رہے ہیں۔
ایک دن لطیفی صاحب نے اپنا بوریا بستر باندھا اور اس گھر سے چلے گئے۔کتوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے میں نے ان کے جانے پر اس علاقے کے کتوں پر اس کا رد عمل جاننے کا تردد نہیں کیا۔ہاں چڑیوں پر جو ان کے جانے کا اثر ہوا وہ میرے ذہن پر نقش ہے۔ صبح کو گزرتے ہوئے میں اس گھر پر ضرور نظر ڈالتا تھا۔چڑیوں کی چہک مہک غائب ہو چکی تھی۔کچھ دنوں تک تو یہ لگا جیسے اس علاقے کی چڑیاں چہکنا ہی بھول گئی ہیں۔” (چراغوں کا دھواں از انتظار حسین)
حکیم ناصر نے کیا خوب کہا تھا:
سارا ہی شہر اس کے جنازے میں تھا شریک
تنہائیوں کے خوف سے جو شخص مر گیا
م حسن لطیفی کے لوح مزار پر یہ عبارت کندہ ہے:
تاریخ وفات
میاں محمد حسن لطیفی صحافی پسر محمد شاہ صاحب رئیس لودیانہ
۲۳،مئی ۱۹۵۹ مطابق ۱۴ ذیقعد ۱۳۷۸ ہجری
وائے حسن لطیفی قادر بیاں ادیب
پسر سخی محمد شاہ ولی و سعد
آں گنج بخش فیض کرم مظہر سخا
مفلس را ابر باراں و منعم را مثال رعد
رفت از جہان فانی و ممکن نمی گذاشت
پیدا کند زمانہ حریفش بدور بعد
سیدم از سروش تاریخ رحلتش
گفتا بشب ماہ کمال از ما ذیقعد
۱۴ ذیقعد ۱۳۷۸ ہجری
م حسن لطیفی کا یہ شعر ملاحظہ ہو
:
شاعر کی لرزتی ہوئی پلکوں سے جو ٹپکا
اس بیش بہا موتی کا ساحل تھا نہ بازار
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے:
دلی یاد آتی ہے۔یادداشتیں۔مصنفہ: روح افزاء حیدر۔ناشر: ملٹی گرافکس اسلام آباد۔سن اشاعت: 2002۔صفحات: 295
ناصر کاظمی ایک دھیان۔مصنف: شیخ صلاح الدین۔ناشر: مکتبہ خیال لاہور۔سن اشاعت: 1982۔صفحات: 130
رطب و یابس۔شاعری۔ظفر اقبال ۔ناشر: جنگ پبلیکیشنز لاہور سن اشاعت: 1991صفحات: 226
لطیفیات۔شاعری۔حصہ اور و دوم۔م حسن لطیفی۔ناشر: ادارہ نقوش لاہور۔سن اشاعت: 1988۔صفحات: 351
اردو ڈائجسٹ۔آپ بیتی نمبر۔سن اشاعت: اپریل 2000۔صفحات: 350
اردو ڈائجسٹ۔عظیم سفرنامے نمبر۔سن اشاعت: سالنامہ 2000 ۔صفحات: 396
٭٭٭
کتابوں کا اتوار بازار- 8 اپریل 2012-بیان مولانا عبدالسلام نیازی کا
اتوار بازار کا ہفتہ وار پھیرا اب احباب کی ملاقات کا دوسرا نام بن گیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔ کتاب کسی ایک کو مل جائے تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ دوسرے اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بھائی چارے کی کیسی کیسی مثالیں چشم فلک نے اس بازار میں دیکھی ہیں۔
گزشتہ اتوار ملنے والی کتاب "ناصر کاظمی-ایک دھیان” ہمارے کرم فرما جناب قیصر کریم کو ملی تھی، انہوں نے ہمیں سونپ دی کہ پہلے آپ پڑھ لیجیے اور اسکین کر کے محفوظ بھی کر لیجیے۔ ان کے توسط سے کتنے ہی دوستوں نے یہ دلچسپ کتاب پڑھی۔
دو روز قبل شاہد احمد دہلوی کے دلی کی نابغہ روزگار شخصیت مولانا عبدالسلام نیازی پر لکھے خاکے کی طلب ہوئی، اور اتفاق دیکھیے کہ شاہد دہلوی کی کتاب اجڑا دیار ایک ایسے کتب فروش کے پاس کتابوں کے ڈھیر میں پڑی ملی جہاں "ہر مال بیس روپیہ” کی آوازیں لگائی جا رہی تھیں۔مولانا عبدالسلام نیازی کا خاکہ کتاب مذکورہ میں موجود ہے، مولانا کی ایک نادر تصویر بھی کتاب میں شامل ہے، اس سے قبل ہمیں مولانا کی کوئی تصویر دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ روڑہ دلی کا ہو اور مولانا کے تذکرے کے بغیر آگے بڑھ جائے، یہ ناممکن ہے۔
شاہد دہلوی کے علاوہ اخلاق احمد دہلوی نے بھی اپنی خودنوشت ’یادوں کا سفر‘ میں مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کیا ہے۔
نو عمری کا زمانہ تھا، اخلاق احمد دہلوی اپنے والد کے ہمراہ مولانا کے پاس پڑھنے کی غرض سے تھر تھر کانپتے ہوئے پہنچے۔ لطف کی بات یہ تھی کہ ان کے والد بھی خوف سے کانپ رہے تھے۔ بقول اخلاق دہلوی یہ وہ بزرگ تھے جن کے سامنے مفتی اعظم ہند مولوی کفایت اللہ کا پتہ بھی پانی ہوتا تھا۔
سر اکبر حیدری نظام حیدرآباد کا کوئی پیغام لے کر مولانا سے ملاقات کی خاطر ان کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ مولانا کی پاٹ دار آواز آئی
کون ہے ؟
اکبر حیدری نے اپنا نام اور مقام بتایا۔
مولانا نے جواب دیا: بس، آپ کی خدمت میں مولوی عبدالسلام کے کوٹھے کی یہ تین سیڑھیاں ہی لکھی تھیں۔ چوتھی سیڑھی پر قدم نہ رکھنا اور اپنے رئیس سے کہنا کہ اگر اس کی ساری دولت ایک پلڑے میں ترازو کے رکھ دی جائے اور دوسرے حصے میں ہمارے جسم کا کوئی رواں، تو ترازو کا یہ پلڑا زمین پر لٹکا رہے گا اور پہلا پلڑا معلق رہے گا۔ خدا خوش رکھے۔۔خدا خوش رکھے۔
سر اکبر حیدری مایوس واپس لوٹ گئے!
کچھ ایسا ہی اخلاق احمد دہلوی کے ساتھ بھی ہوا۔
مولانا عبدالسلام نیازی نے اخلاق دہلوی کے والد سے پوچھا۔اچھا، خدا خوش رکھے، تو یہ وہی صاحبزادے ہیں آپ کے جو مفتی صاحب سے فقہ پڑھنے میں ان کا ناطقہ بند اور قافیہ تنگ کرتے رہے۔ یہ کہہ کر مولانا نے اخلاق دہلوی کی جانب دیکھا اور کہا: خدا آپ کو علم کا پہاڑ بنا دے، ماشاءاللہ، خدا خوش رکھے۔بس جائیے اور اپنے والد کو بھی اپنے ساتھ لے جائیے۔
ایسی کیا بات تھی کہ ایک عالم مولانا سے ملاقات کا متمنی رہتا تھا۔ جوش ملیح آبادی نے بھی یادوں کی برات میں مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کیا ہے۔
” وہ مشرقی علوم کے حرف آخر انسان اور شہنشاہ تھے۔ قران، حدیث، منطق، حکمت، تصوف، عروض، معنی و بیان، علم الکلام، تاریخ، تفسیر، لغت، لسانی فوائد، ادب اور شاعری کے امام تھے۔ جید عالم ہونے کے باوجود علمائے سو کے تشابہ سے بچنے کے لیے انہوں نے داڑھی مونچھ کا صفایا کر دیا تھا۔ وہ تصوف و حسن پرستی کے متوالے، اور اپنے عہد شباب میں تمام اولیائے ہند کے مزارات کے چکر لگاتے، اور اپنی محبوبہ کو ساتھ لے کر تمام عرسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ لیکن زندگی کے آخری ایام میں وہ اس قدر سختی کہ ساتھ خلوت پسند اور خود نشیں ہو گئے تھے کہ تقریباً بائیس برس کی مدت میں، وہ اپنے دہلی کے ترکمان دروازے کی پتلی سی گلی کے بالا خانے سے کبھی ایک بار بھی نیچے نہیں اترے تھے۔ "”
اپنی اس متشددانہ طبیعت کی بنا پر مولانا کے رویے بھی اسی جیسے ہو گئے تھے۔ جوش اکثر ان سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے، مولانا نے جوش کو حکم دے رکھا تھا کہ خبردار! جب تک کہ کوئی شخص حسین یا عالم نہ ہو، میرے پاس ہرگز مت لے کر آنا۔ جوش ایک مرتبہ اپنے ہمراہ ساغر نظامی کو لے گئے۔ مولانا خوش ہوئے اور فرمایا:
"اچھی چیز لائے ہو ”
جوش ملیح آبادی نے مولانا عبدالسلام نیازی کے بیان میں جو باتیں مذکورہ بالا بیان کے علاوہ لکھی ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ یہاں نقل کی جا سکیں۔۔ "خوف فساد خلق” کا خدشہ لاحق ہے۔ جن احباب کو یقیں نہ آئے، یادوں کی برات کا مطالعہ کر لیں۔
ایک مرتبہ جوش مولانا عبدالسلام نیازی کے پاس بیٹھے تھے۔ ایک وردی پوش نے آ کر کہا کہ نیچے ہزہائی نیس فلاں فلاں کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ اجازت دیں تو حاضر ہوں۔
مولانا نے کہا کہ اگر وہ میرے سامنے آ کر یہ کہیں کہ میرے تاج سے عبدالسلام کی جوتی اونچی ہے تو شوق سے آئیں ورنہ گاڑی بڑھا دیں۔
"ہز ہائی نیس” سمجھدار تھے، اوپر آئے اور مولانا کے پاس بیٹھ کر نہایت ادب سے باتیں کیا کیے۔
حیدرآباد کے وزیر تعلیم نواب مہدی یار جنگ، مولانا کے کوٹھے سے نیچے اتر رہے تھے کہ جوش سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے کہا حضرت خیریت، آپ یہاں۔
نواب صاحب نے کہا کہ خواجہ حسن نظامی نے مجھے مولانا عبدالسلام نیازی کے پاس بھیج کر ذلیل کروا دیا۔ جوش حیران ہو کر سیڑھیاں چڑھے اور مولانا سے قصہ دریافت کیا۔ مولانا کا جواب ملاحظہ کیجیے:
” مہدی یار جنگ نے جب مجھ سے یہ کہا کہ میں آپ کو حضور نظام سے ملواؤں گا، آپ میرے ساتھ حیدرآباد چلیے، وہ آپ کا وظیفہ مقرر کر دیں گے تو میرا ناریل چٹخ گیا اور میں نے اسے کہا کہ آپ کے نزدیک کیا یہ بات ممکن ہے کہ میں اس جاہل نظام کے سامنے، اپنی وجاہت علمی کی کمر میں، ذلت کی پیٹی باندھ کر جاؤں اور اس مسخرے کو خداوند نعمت اور اپنے آپ کو فدوی کہوں ؟ ”
جوش نے اس کے بعد جو کچھ لکھا ہے اسے یہاں نقل کرنے کی تاب راقم میں نہیں ہے۔
یہ جرات تو ڈاکٹر خلیق انجم بھی نہیں کر سکے جنہوں نے 2008 میں خاکوں کی کتاب "مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا” میں مولانا عبدالسلام نیازی کا خاکہ لکھا تھا۔
خلیق انجم لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مولانا نے نظام حیدرآباد کی شان میں کو قصیدہ پڑھا میں اسے یہاں نقل نہیں کر سکتا، آپ خود ہی یادوں کی برات میں پڑھ لیجیے۔ (مولانا عبدالسلام نیازی، صفحہ 208، مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، انجمن ترقی اردو ہند)
خلیق انجم کے تحریر کردہ خاکے میں کئی دلچسپ باتیں ہیں۔ ہم نے بین السطور جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات میں درج خاکے سے یہ اقتباس نقل کیا تھا کہ:
"وہ تصوف و حسن پرستی کے متوالے، اور اپنے عہد شباب میں تمام اولیائے ہند کے مزارات کے چکر لگاتے، اور اپنی محبوبہ کو ساتھ لے کر تمام عرسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ”
خلیق انجم کی تحریر سے اس پر مزید روشنی پڑتی ہے، وہ لکھتے ہیں:
” جے پور کی دو "گانے والیاں” تھیں، ببو اور گوہر۔ مولانا ان دونوں کے گانے کے مداح اور اور حسن کے شیدائی تھے۔ جے پور کی ایک اور گانے والی تھیں، اس کا نام بے نظیر تھا، مولانا کو ان سے عشق تھا۔ اکثر مزاروں پر اس محبوبہ کے ساتھ جاتے تھے، جوش نے یادوں کی برات میں اسی کا ذکر کیا ہے۔”” (صفحہ 203)
مولانا عبدالسلام نیازی کو ایک مرتبہ ہندو مذہب کے مطالعے کا شوق ہوا۔ اس موضوع ہر بہت سی کتابیں پڑھیں لیکن تسلی نہیں ہوئی۔ بلآخر ہندوؤں کا بھیس بدل ہری دوار کی راہ لی، بارہ برس ہری دوار، لکشمی جھولا اور رشی کیش میں رہے۔ ہندو سادھوں کی طرح سمادھی لگاتے تھے۔ ایک روز انہیں خیال آیا کہ مجھے اتنے برس ہو چکے ہیں ان لوگوں کے ساتھ رہتے رہتے، اب تک نہیں پہچان سکے کہ میں مسلمان ہوں، جب یہ لوگ مجھے نہیں پہچان سکے تو خدا کو کیا پہچانیں گے ؟
اسی شام کو مولانا جنگل سے گزر رہے تھے۔ جھٹ پٹے کا وقت تھا۔ دیکھا کہ سادھو سامنے سے چلا آ رہا ہے۔ اس جنگل میں سادھو کو دیکھ کر مولانا حیرت میں پڑ گئے اور ایک درخت کی آڑ میں چھپ گئے۔ جب وہ آگے نکل گیا تو مولانا اس کے پیچھے چلے، تھوڑی دور پر ایک جھونپڑی تھی۔ سادھو اس جھونپڑی میں چلا گیا۔ مولانا باہر چھُپے کھڑے رہے۔ انہیں پھر یہ خیال آیا کہ جب یہ لوگ مجھے نہیں پہچانتے تو خدا کو کیا پہچانیں گے۔ اچانک جھونپڑی میں سے سادھو کی آواز آئی، عبدالسلام! چھپو نہیں، آ جاؤ۔ مولانا اپنا نام سن کر خائف ہو گئے اور بے اختیار ان کے قدم اس جانب اٹھ گئے۔ جھونپڑی میں داخل ہوئے تو سادھو نے کہا کہ تم بے وجہ پریشان ہو رہے ہو، ہم نے دس گیارہ سال پہلے جب تمہیں دیکھا تھا، اسی وقت پہچان گئے تھے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ تم دہلی واپس چلے جاؤ، وہاں خلق خدا کی زیادہ خدمت کر سکو گے۔
مولانا دہلی واپس لوٹ گئے!
مولانا کا مزاج ایسا تھا کہ اچھے اچھوں کو بے طرح جھڑک دیا کرتے تھے۔ ایک عالم ان کے پاس اکتساب علم کے حصول کی غرض سے آنے کا خواہشمند رہتا تھا۔ مسائل دریافت کرنے والے اس پر مستزاد۔
ایک صاحب حج سے واپس آئے تو مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کسی نے مولانا کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ان صاحب کی دو غیر شادی شدہ لڑکیاں گھر بیٹھی ہیں، بہت کم آمدنی ہے پھر بھی قرض لے کر حج پر گئے ہیں۔ یہ سن کر مولانا بھڑک ہی تو گئے۔
"آپ اتنے دن بعد حج سے واپس کیوں آئے ہیں ؟ ” مولانا نے اس صاحب سے دریافت کیا
وہ صاحب بولے: ” حضرت، جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ اندھیرے کی طرف کیسے جائے ”
مولانا بپھر گئے، ضبط کھو بیٹھے، ڈپٹ کر کہا : ” سالے! تو یوں کروں، اس کا مطلب ہے کہ ہم اندھیرے میں رہتے ہیں، تُو قرض لے کر روشنی میں گیا تھا۔ نکل یہاں سے تیری۔۔۔۔۔۔””
وہ صاحب جوتیاں چھوڑ کر بھاگے۔
——–
تقسیم ہند کے بعد مولانا عبدالسلام نیازی کے کئی دوست پاکستان چلے گئے۔ جوش ملیح آبادی جانے سے پہلے ان سے ملنے گئے لیکن اس مرتبہ مولانا نے انہیں بھی بے نقط کی سنائیں۔ دلی کا یہ روڑہ گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔ بلآخر 30 جون 1966 کو چند دن بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کی تفصیل یہ ہے:
اجڑا دیار۔شاہد احمد دہلوی
ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
سن اشاعت: 1981 دوسری بار (اشاعت اول: 1961 )
صفحات: 432
غبار خاطر ابو الکلام آزاد
مرتبہ: مالک رام
ناشر: ساہیتہ اکیڈمی دہلی
سن اشاعت: 1981
صفحات: 435
کتاب زیست
خودنوشت
الحاج محمد زبیر
ناشر: ایجوکیشنل پریس کراچی
سن اشاعت: مئی 1982
صفحات: 352
خشک چشمے کے کنارے
مجموعہ مضامین
ناصر کاظمی
ناشر: مکتبہ خیال، لاہور
سن اشاعت: مارچ 1982
صفحات: 184
اجڑا دیار میں شاہد دہلوی نے اس دلی کی معاشرتی اور تہذیبی جھلکیاں پیش کی ہیں جو 1947 تک قائم تھی۔ فہرست مضامین یہ ہے:
ایک چراغ گل ہو گیا، نگاہ اولیں، دلی کے چٹخارے، دلی کے دل والے، دلی کی گرمی، فالیز کی سیر، باغ کی سیر، قطب صاحب کی سیر، پھول والوں کی سیر، چوک کی بہار، شام کی چہل پہل، چٹور پن، دلی کے حوصلہ مند غریب، دلی والوں کے شوق، رہن سہن کی ایک جھلک، بھانڈ اور۔۔۔۔۔۔۔۔، دلی کا ایک شریف گھرانہ، دلی کی ایک پرانی حویلی، دلی کے چند گیت، روزہ کشائی، میٹھی عید، سلونی عید، بسنت کی بہار، سترھویں کی سیر، راگ رنگ کی ایک رات، دلی کا آخری تاجدار، شاہ جہانی دیگ کی کھرچن اور دلی کا غسل خونیں۔
٭٭٭
عالمی اردو کانفرنس کراچی۔ 2011
حضرت داغ اپنے ’یاروں ‘سے کہہ گئے ہیں کہ اردو زبان آتے آتے، آتی ہے۔ جبکہ بزرگوں کا مشورہ ہے کہ زبان و بیان کو غلطیوں سے پاک رکھنے کے لیے لازم ہے کہ زبان و بیان کے ماہرین کی تحاریر پڑھنے اور کلاسیکی شاعری کا مسلسل مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اہل زبان کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی گفتگو سننے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ کسی اہل زبان حور خوش خصال کی صحبت نصیب ہو جائے تو کیا ہی کہنے
ردیف، قافیہ، بندش، خیال، لفظ گری
وہ حور زینہ اترتے ہوئے سکھانے لگی
یہ علاحدہ بات ہے کہ اکثر محفلوں میں بیٹھ کر جو پلے ہوتا ہے، الٹا اس کے لٹ جانے کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ بقول شخصے گورا شاہی اردو نے اردو کا حال، بے حال کر دیا ہے، ایسے جملے عام ہو چکے ہیں کہ ’ مجھے آفٹر نون میں بینک جانا ہے، وہاں ٹو او کلاک کو آڈٹ شروع ہو جائے گا‘۔۔ ان تمام فاسد خیالات کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے کچھ سیکھنے کی غرض سے رخ کیا عالمی اردو کانفرنس کے رنگا رنگ میلے کا۔
روزنامہ ایکسپریس کے زیر اہتمام اردو اور عصر حاضر۔ بین الاقوامی کانفرنس، ۳۰ ستمبر اور یکم اکتوبر کے دو روز اہلیان کراچی کے لیے تحفے سے کم نہ تھے، دنیا بھر سے مندوبین کی آمد نے اسے دونوں دن حاضرین کے لیے پرکشش بنائے رکھا۔ ہندوستان سے جیلانی بانو، زبیر رضوی، عازم کوہلی اور شمیم حنفی تشریف لائے، رضا علی عابدی نے لندن سے کراچی کا رخ کیا، کینیڈا سے اشفاق حسین اور تقی عابدی، ناروے سے فیصل ہاشمی، ترکی سے ڈاکٹر خلیل طوق آر اور چین سے تھانگ منگ شنگ نے اردو کانفرنس کو رونق بخشی، لاہور سے امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، انتظار حسین، ڈاکٹر سلیم اختر شریک ہوئے، کراچی سے پیر زادہ قاسم، فاطمہ حسن، زاہدہ حنا، محمد علی صدیقی شریک ہوئے۔ دیگر شرکاء میں آغا ناصر، ڈاکٹر نجیب جمال، احفاظ الرحمن، امینہ سید موجود تھے۔ مقالے پڑھے گئے اور شاعری سنائی گئی۔
شاعری کے میدان کو پر کرنے لیے کانفرنس کے دوسرے دن ظفر اقبال، سحر انصاری، ایوب خاور، سعود عثمانی،انور مسعود،اشفاق حسین، فاطمہ حسن، پیرزادہ قاسم، عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، عازم کوہلی، شاہدہ حسن، بشری اعجاز، زبیر رضوی، تقی عابدی، سورج نرائن، عباس تابش، سرور جاوید، حسن اکبر کمال اور جاوید صبا نے اپنے کلام سے شرکاء کو محظوظ بھی کیا اور رات تین بجے تک مبحوس بھی کیے رکھا۔ لاہور سے آئی ہوئی بشری اعجاز تو پہلے ہی کہہ چکی تھیں کہ وہ کراچی کے حالات کی وجہ سے خوفزدہ تھیں۔
رضا علی عابدی اردو زبان کو چراغوں کا تیل قرار دے رہے تھے اور اس سے متعلق واقعہ سناتے ہوئے بیان کر رہے تھے کہ وہ بھارتی شہر کلکتہ کا ایک ایسا انوکھا مندر دیکھنے پہنچے جو مکمل طور پر سفید چمکیلے پتھروں کا بنا ہوا تھا، اس مندر کی دیوار میں ایک طاق تھا جس میں چراغ جل رہا تھا،اس چراغ کی لو کی یہ خصوصیت تھی کہ اس کے جلنے سے مندر کی دیوار سیاہ نہیں ہو رہی تھی۔ یہ منظر لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ وہاں موجو د لوگوں سے پوچھا گیا کہ اس چراغ میں آخر کون سا تیل ہے ؟ رضا علی عابدی جھٹ بولے ’ اس میں اردو زبان کا تیل ہے، یہ زبان سیاہ نہیں کرتی‘
تقریب کے دیگر مقررین کے خطابات سے چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں :
٭ اس کانفرنس کی کامیابی نے اردو زبان کو لاحق خطرات کا خاتمہ کیا ہے (ڈاکٹر سلیم اختر)
٭ جیلانی بانو نے ’اردو ادب میں خواتین کی حصہ داری‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے پہلے افسانے میں عورت کا کردار اہم رہا اس کے بعد سب کچھ مرد نے لکھا۔ شراب، عورت اور رات ادب کا حصہ ہے لیکن صرف خوبصورت عورت کو ہی یہاں تک رسائی حاصل ہے، جو عورت خوبصورت نہ ہو اسے اردو ادب میں چڑیل کا کردار دیا گیا ہے۔ مرد شاعر ایک طوائف کے عشوہ و غمزہ کی بنیاد پر مشاعرہ لوٹ لیتا ہے لیکن عصمت چغتائی کو لحاف کے لیے عدالت تک جانا پڑا۔
٭ میٹرک کے بعد اردو زبان ہانپنے اور انٹرمیڈیٹ کے بعد ہکلانے لگتی ہے (شکیل عادل زادہ)
٭ جس روز پاکستانی مائیں اپنے بچوں کو انگریزی سکھانے کی کوشش ترک کر دیں گی اسی روز سے اردو کے عملی نفاذ کی راہ ہموار ہونا شروع ہو جائے گی۔ افریقہ کے کئی ممالک میں جنگلوں میں بھی کالے حبشی فر فر انگریزی او فرانسیسی بولتے ہیں لیکن یہ زبانیں وہاں سڑک، صحت اور خوشحالی نہیں لے کر گئیں۔ چین اور ترکی کا کام انگریزی کے بغیر بھی بہت اچھا چل رہا ہے۔ (ڈاکٹر خلیل طوق آر۔ ترکی)
کانفرنس کے دوسرے روز میں صبح صبح رضا علی عابدی صاحب کے پاس بیٹھا تھا، خوش قسمتی سے وہ جلدی پہنچ گئے تھے، مرکزی دروازے پر میں ان کے استقبال کے لیے موجود تھا، ایک صاحب ان کی جانب لپکے اور باتیں کرنے لگے، کچھ دیر بعد عابدی صاحب میری طرف اشارہ کر کے ان صاحب سے کہتے ہیں کہ ’میں ان کے ساتھ ہال میں جا رہا ہوں، یہ میرے فیس بک کے دوست ہیں ‘۔۔ وہ صاحب جھٹ جواب دیتے ہیں ’’ تو یوں کہیے کہ آپ کے فیس بک کے دوست اس وقت فیس ٹو فیس ہیں ‘‘۔ عابدی صاحب قہقہہ لگاتے ہوئے ہال کا رخ کرتے ہیں۔
اندر پہنچ کر ہم نے ایک گوشہ عافیت تاکا۔ عابدی صاحب سے جی بھر کے باتیں کیں۔ کتابوں کی، لوگوں کی، اردو زبان سے ان کی محبت کی۔ درمیان میں لوگ ان سے ملاقات کے لیے آتے رہے، لاہور سے آئے
ہوئے اردو ڈائجسٹ کے نئے مدیر اختر عباس نے دس منٹ کا انٹرویو محفوظ کیا۔ پشتو بولنے والا ایک نوجوان اپنی عقیدت کا مظاہرہ کرتا رہا، وہ کراچی کے ایک اردو اخبار میں ملازم ہے، اردو میں لکھنے کا شوق ہے، عابدی صاحب اس کی باتیں نہایت غور سے سنتے رہے کہ وہ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہوتی، عابدی صاحب نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ چلتے چلتے وہ نوجوان مجھ سے میرا تعارف پوچھتا ہے، میں اپنا نام بتاتا ہوں، وہ یک دم ٹھٹک جاتا ہے۔ ’ وہ خودکش والے راشد اشرف‘ ؟۔۔ میں گھبرا جاتا ہوں، وہ قبائلی علاقے کا رہنے والا کہیں میری تلاش کی مہم پر مامور تو نہیں ؟
’بھائی وہ خودکش (زبر کے ساتھ) تھا‘۔ میں اسے جواب دیتا ہوں
ایک خاتون رضا علی عابدی صاحب کے قدموں میں بیٹھ جاتی ہیں، اپنی دو عدد سہیلیوں کو بھی کھینچ لا ئی ہیں، عابدی صاحب کے ساتھ تصاویر کی فرمائش مجھ ہی سے کرتی ہیں اور میں دل ہی دل میں کہتا ہوں ’’ بی بی ! قدموں میں بیٹھیے، خدا کے لیے جڑوں میں نہ بیٹھ جائیے گا کہ عا بدی صاحب کا سلسلہ تکلم ان کے چاہنے والوں کی در اندازی سے پہلے ہی ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ ‘‘
کچھ فرصت ہوئی تو عابدی صاحب مجھے بتانے لگے کہ انہوں نے اردو کی خاطر کھبتی ہوئی آگ، دہکتی ہوئی زمین اور برستے شعلوں جیسی گرمی میں بہار کا سفر کیا تھا اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بی بی سی سے وابستہ تھے اور جرنیلی سڑک جیسے پروگرامز کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کی آنے والے کتابوں میں ’کتابیں اپنے آباء کی‘ اور ’ اخبار کی راتیں ‘شامل ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ’’لوگ طویل سفر کر کے سفر نامہ لکھتے ہیں لیکن طویل قیام کر کے کوئی قیام نامہ نہیں لکھتا، میں اپنے قاری کو ان یادوں میں حصہ دار بنا نا چاہتا ہوں لیکن ٹائپنگ کی غلطیوں اور دیگر معاملات کی وجہ سے پریشان ہوں، یہ کیا کہ ’بیت ‘صفحے کے آخر میں لکھا گیا اور ’خلا ‘اگلے صفحے کے شروع میں ‘‘
لندن میں چالیس برس سے مقیم رضا علی عابدی کے قارئین کو شنید ہو کہ عابدی صاحب کا قلم ایک قیام نامہ تحریر کرے گا۔
انہوں نے کہا ’’ سفر نامہ نگار منظر کو بیان کرتا ہے، میں منظر کو دعوت دیتا ہوں کہ خود کو بیان کرے‘‘
کراچی کے اتوار بازار سے ملنے پرانی کتابوں کے احوال میں، میں عابدی صاحب کو بھی شریک کرتا رہتا ہوں، اسی کا ذکر چل نکلا، مصنفین کے دستخط شدہ نسخوں کی فٹ پاتھ پر فروخت کی بات ہوئی تو عابدی صاحب نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ ایک مرتبہ انہوں نے الہ آباد کے فٹ پاتھ پر مشتاق احمد یوسفی کی کتاب فروخت ہوتے دیکھی، اس کتاب پر یوسفی صاحب کے دستخط موجود تھے۔
جواب میں ایک تگڑی مثال تو میرے پاس بھی تھی، کنور مہندر سنگھ بیدی کی یادوں کا جشن،جس پر ان کے دستخط موجود تھے، کراچی کے فٹ پاتھ سے مجھے ملی تھی۔
’’ ارے بھئی ایک مرتبہ تو حد ہو گئی ‘‘ رضا علی عابدی کہہ رہے تھے۔ ’’بہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب نے مجھے اپنی ایک کتاب پیش کی اور ساتھ ہی فرمانے لگے کہ عابدی صاحب، اس کتاب پر میں نے اپنا وزٹنگ کارڈ چسپاں کر دیا ہے، اگر آپ اس کتاب کو کبھی کسی کو دیں تو اس کارڈ کو نوچ کر پھینک دیجیے گا،میں نے انہیں کہا کہ صاحب! طمانچہ مارنے کو میں ہی ملا تھا آپ کو‘‘
بڑی اسکرین کے ٹی وی پر ہندوستان کے شاعر، افسانہ نگار، ہدایتکار، کہانی و منظر نویس سمپورن سنگھ گلزار، عالمی اردو کانفرنس کے بارے میں اظہار خیال کر رہے تھے۔ گلزار خود تو نہ آ سکے، اپنا پیغام ریکارڈ کر کے بجھوا دیا۔ ان کا شعر ہے:
آئینہ دیکھ کے تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
گلزار صاحب کو دیکھ کر ہمیں تسلی ہوئی۔ آپ کو اردو کے اس گھر میں سبھی جانتے ہیں جناب۱
اسی دوران عقیل عباس جعفری صاحب تشریف لے آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک اسٹیج سے ڈاکٹر تقی عابدی کے گرجنے کی آواز آئی، ہم نے گھبرا کر اس طرف دیکھا، یوں لگا تھا جیسے کوئی سیاسی لیڈر اسٹیج پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ جلد ہی شرکاء کی توجہ ان کی جانب مکمل طور پر مبذول ہو گئی۔ وہ کہہ رہے تھے:
’’ میر انیس نے اردو کو کلمہ پڑھایا، غزل نے اردو زبان کو لالی لگائی، مرثیے نے اس کی آنکھوں میں سرمہ لگایا، قطعہ نے اسے دلہن بنایا،فارسی نے سوتن بن کر اردو زبان کو دربار میں جانے سے روکا، پھر بھی لوگ اس کی زلفوں کے اسیر ہو گئے۔ اردو کا رسم الخط اس کی پہچان اور اس کے جسم کا لباس ہے، اس سے سمجھوتہ کرنا اردو سے غداری کے مترادف ہے۔ ‘‘
تقریب کے شرکاء تالیاں بجاتے بجاتے بے حال ہو گئے۔
اپنے ساتھ کھڑے ایکسپریس ٹی وی کے ایک اعلی عہدیدار سے میں نے درخواست کی کہ جس حساب سے یہاں بات بات پر تالیاں بجائی جا رہی ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے آپ سے درخواست ہے کہ فوری طور پر اگلی تقریب ڈئینگی مچھر کے حملے کی زد میں آئے ہوئے شہر لاہور میں منعقد کروائی جائے کہ اس نامعقول مچھر سے نجات کا اس سے ارزاں حل اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ مچھر لاہور میں منہ زور ہو رہا ہے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ڈینگی کے ایک مچھر نے دوسرے سے کہا کہ میں دنیا بھر میں گھوما ہوں، لاتعداد لوگوں کو کاٹا ہے لیکن ’ لاہور، لاہور ہے‘
انتظار حسین نے اپنے خطاب میں اردو افسانے سے متعلق احمد ندیم قاسمی کے جملے کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’’ اردو افسانہ انگریزی افسانے سے آگے نکل گیا ہے۔ ‘‘، انتظار حسین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی حد تک یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ’میرا افسانہ انگریزی افسانے سے آگے نہیں نکلا‘۔
آغا ناصر نے اپنے خطاب میں ایک مکمل اردو ٹی وی چینل کے اجراء کی تجویز پیش کی۔
کانفرنس کے دوسرے روز سر شام مشاعرہ بپا ہوا اور نثری حملوں سے ادھ موئے شرکاء نے اسے خوش آمدید کہا۔
شرکاء نے شعرا کے کلام پر داد بھی دی اور جہاں معاملے کو زبانی داد سے بڑھ کر پایا، وہاں بے اختیار تالیاں پیٹنا شروع کر دیں، چند مثالیں پیش خدمت ہیں :
نہ جانے کون دعاؤں میں یاد رکھتا ہے
میں ڈوبتا ہوں سمندر اچھال دیتا ہے (سورج نرائن)
٭
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے ( عباس تابش)
٭
اب اسے بھول جانے کا ارادہ کر لیا ہے
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کر لیا ہے (عطاء الحق قاسمی)
٭
میں نے کب دعوی کیا تھا سر بسر باقی ہوں میں
پیش خدمت ہو گیا ہوں، جس قدر باقی ہوں میں (ظفر اقبال)
امجد اسلام امجد نے اپنے پٹارے سے برسوں پرانی ’ تجھ سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں ‘ نکالی اور باوجود اس قدر جھمیلے کے، اپنی نظم پڑھ گئے۔ پیرزادہ قاسم نے بھی اپنی مشہور زمانہ غزل ’خون سے جب جلا دیا اک دیا بجھا ہوا۔ پھر مجھے دے دیا گیا اک دیا بجھا ہوا ‘ دوبارہ سنائی، شرکاء نے ان کا یہ کلام ان کی آواز سے آواز ملا کر مکمل کیا۔
یہ ممکن نہیں کہ جس محفل میں انور مسعود ہوں، وہاں قہقہے نہ گونجیں :
گویا کم کم ہے دید کا امکان
آرزو کی کلی نہیں کھلتی
گرچہ نزدیک ہے گلی تیری
پر ہمیں پارکنگ نہیں ملتی
انور مسعود اسٹیج سے جانے کے لیے اٹھتے تھے اور ادھر ہر بار مجمع سے ایک غلغلہ بلند ہوتا تھا کہ مت جائیے۔ آخر میں جاتے جاتے کہنے لگے کہ ’والدین کے اصرار پر میں نے ڈاکٹر نہ بن کر میڈیکل سائنس پر احسان کیا ہے۔ ‘
امن و امان کی دگرگوں صورتحال اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بے حال اس شہر میں یہ تقریب ادبی تقریبات کا ایک روشن باب قرار پائی۔
٭٭٭
ادیبوں اور شاعروں کے درمیان ایک شام
اکیس جنوری ۲۰۱۲ کی ایک خنک شام،جو رفتہ رفتہ رات میں تبدیل ہوتی رہی، گلستان جوہر، کراچی میں کچھ شاعروں اور چند ادیبوں کے درمیان گزری جن کے میزبان سید معراج جامی تھے۔ گھر سے چلتے وقت ایک دوست آ گئے جو حسن اتفاق سے اس روز بھی آ دھمکے تھے جس روز جامی صاحب ہی کے گھر کا قصد تھا، اس مرتبہ یہ سچ مچ بگڑ گئے:
’یار آپ پچھلی مرتبہ بھی جلدی میں تھے، کوئی ادبی نشست تھی، آج بھی وہیں جا رہے ہیں ‘
’اس مرتبہ کوی سمیلن ہے، مطلب مشاعرہ ہے ‘ میں نے گڑبڑا کر کہا
’ میں بھی چلوں ‘ ؟ انہوں نے اشتیاق سے پوچھا
’ اہل زبان ہونا شرط ہے‘ میں نے کہا ’ ویسے یار! تمہاری زبان کیا ہے ؟
جواب میں دوست نے اپنی پان سے رنگی زبان باہر نکال دی، یہ اشارہ تھا کہ میں جا سکتا ہوں۔
منزل پر پہنچا تو مہمانوں کی آمد آمد تھی، غلبہ شعرا کرام کا تھا۔
خدا نہ کرے کہ’ معاملہ اپنے خرچ پر آئے اور اپنی ذمہ داری پر کلام سنا کر چلے گئے‘ والا ہو، میں سوچ رہا تھا۔ فدوی کو مشاعروں میں شرکت کا تجربہ جو نہیں ہے، دوران نشست ایک موقع پر تو ہوا بھی وہی جس کا ڈر تھا، ایسا کڑا وقت آیا کہ جناب امیر السلام ہاشمی نے،جو میرے بہت قریب بیٹھے تھے، کڑک کر کہا ’’ بھئی ! آپ چپ کیوں ہیں، داد دیجیے نا‘‘، اوسان خطا ہو چلے تھے کہ ایک کونے سے کسی خاتون کی ڈھارس بندھاتی آواز آئی ’’ وہ لکھ رہے ہیں ‘‘۔
نشست گاہ کتابوں سے بھری الماریوں کی موجودگی کی وجہ سے قدرے چھوٹی لیکن دلوں میں بہت گنجائش تھی۔ ابتدا میں معاملہ خاتون و حضرات کا تھا جو بعد ازاں خواتین و حضرات پر جا ٹھہرا۔ جامعہ کراچی سے ڈاکٹر مہہ جبین زیدی تھیں، ان کے ساتھ خدیجہ زبیر احمد براجمان تھیں جو نصیر الدین ہاشمی کی صاحبزادی ہیں۔ یہ نصیر الدین ہاشمی وہی ہیں جنہوں نے دکن میں اردو، دکنی کلچر اور یورپ میں دکنی مخطوطات جیسی مشہور کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کے ساتھ دلشاد انجم تشریف رکھتی تھیں جنہیں اخبار جہاں کا پہلا کالم خالہ بی کی ڈائری کے عنوان سے لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ شجاع الدین غوری صاحب نثر نگار ہیں، ان کے ہمراہ شاعر، نثر نگار و ادبی تجزیہ نگار جناب عشرت رومانی تشریف فرما تھے۔ عشرت رومانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شاعری میں کسی سے اصلاح نہیں لی۔ 2005 میں شائع ہوئی ان کی ضخیم کتاب مقصدی شاعر ی۔ ایک جائزہ‘ ادب میں اہم مقام رکھتی ہے۔ عشرت رومانی کے برابر میں بیٹھے امیر السلام ہاشمی صاحب مزاحیہ شاعری میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، شاعری کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں جبکہ ایک کلیات بھی مرتب کی جا رہی ہے۔ ان کے برابر میں آتش زیر پا اور خان کی ڈائری کے مصنف اصغر خان چُپ چاپ ایک گوشے میں بیٹھے تھے، یہ ایک گوشہ نشین شخص تھے جنہیں احمد ہمیش نے دریافت کیا اور دنیائے ادب میں متعارف کرایا۔ اصغر خان کے ہمراہ عزیز احسن تشریف رکھتے تھے، آپ نعتیہ شاعری کرتے ہیں اور فن نعت گوئی میں تنقید کے موضوع پر نعت رنگ نامی مجلے میں کئی اہم مضامین تحریر کر چکے ہیں۔ شاہینہ فلک صدیقی کہ ذرا تاخیر سے آئیں، ایک شاعرہ ہیں جن کا پہلا شعری مجموعہ تتلی کی پہلی بارش حال ہی میں بزم تخلیق ادب کراچی سے شائع ہوا ہے۔
نشست کا آغاز عزیز احسن کی نعت سے ہوا، چند اشعار ملاحظہ ہوں :
تڑپ تو رکھتا ہوں زاد سفر نہیں رکھتا
کرم حضور کہ میں بال و پر نہیں رکھتا
میں عرض حال کے قابل کہاں مرے آقا
سوائے عجز بیاں، اور کوئی ہنر نہیں رکھتا
ستم زدہ ہوں، نگاہ کرم کا طالب ہوں
میں بے اماں ہوں، کہیں کوئی گھر نہیں رکھتا
اس کے بعد صاحب صدر جناب معراج جامی نے اپنی تازہ تخلیق پیش کی:
درد میں کچھ کمی نہ ہو جائے
رائیگاں زندگی نہ ہو جائے
حادثہ واقعی نہ ہو جائے
دشمنی دوستی نہ ہو جائے
ذکر محفل میں اس کا ٹھیک نہیں
گفتگو شاعری نہ ہو جائے
آپ برہم ہیں بے سبب مجھ پر
آپ سے برہمی نہ ہو جائے
زندگی جیسی ہے گوارا ہے
اس سے بڑھ کر بری نہ ہو جائے
یاد میری نکالیے دل سے
یہ مرض دائمی نہ ہو جائے
میرے اتنے قریب مت بیٹھو
کوئی آفت کھڑی نہ ہو جائے
آگہی اک عذاب ہے جامی
خلق کو آگہی نہ ہو جائے
جامی صاحب کے بعد شاہینہ فلک صدیقی نے اپنی غزل پیش کی:
تیرا ثبات سلامت دل جنوں پیشہ
نہ کر مجھے تو ملامت دل جنوں پیشہ
سفر میں ہوں میں ترے ساتھ ایک مدت سے
ہے اور کتنی مسافت دل جنوں پیشہ
فضا میں پھیلتا جاتا ہے نفرتوں کا غبار
جہاد مہر و محبت دل جنوں پیشہ
کسی کے سامنے چپ سادھ لی ہے کیوں تو نے
کہاں گئی تری وحشت دل جنوں پیشہ
بہار نے تو تجھے اپنا کام سونپ دیا
اب آگے تیری طریقت دل جنوں پیشہ
داد و تحسین کے ڈونگرے برستے رہے!
’شمع محفل‘ اصغر خان صاحب کے پاس پہنچی، خان صاحب سے تقریب کے درمیانی وقفے میں گفتگو رہی تھی، ان کا ایک شعر دیکھیے:
تم ہو ابھی حیات، یہ سن کر خوشی ہوئی
ماتم کو میرے ایک عزا دار بچ گیا
خان صاحب گویا ہوئے:
تقدیر سے رشتہ کبھی تحریر سے رشتہ
تخریب سے رشتہ ہو کہ تعمیر سے رشتہ
میں تجھ کو بھلا پاؤں گا یہ بھول تھی میری
قائم ہے برابر تیری تقدیر سے رشتہ
افکار کا قیدی کبھی احساس کا مجرم
کافی ہے پرانا میرا زنجیر سے رشتہ
حاضرین کی فرمائش پر اصغر خان نے ایک اور غزل سنائی:
تہمتوں کا سلسلہ اچھا نہیں
یہ سلوک ناروا اچھا نہیں
سر جھکانے میں بڑا آرام ہے
سرکشی کا راستہ اچھا نہیں
گاہے گاہے رنجشوں کو راہ دو
پیار اتنا بے بہا اچھا نہیں
اجنبی آخر کو پھر ہے اجنبی
اجنبی سے واسطہ اچھا نہیں
تم نہیں واقف ابھی انجام سے
دل لگی کا راستہ اچھا نہیں
کیا کہیں گے لوگ بستی کے
تم رہو ہم سے جدا اچھا نہیں
مان لو اب تو تم کسی کو خدا
یہ تغافل بخدا اچھا نہیں
اصغر خان صاحب کے بعد عشرت رومانی اور خدیجہ زبیر احمد نے اپنی نظمیں سنائیں۔
شاعر ی کے دور کے آخری شاعر جناب امیر السلام ہاشمی تھے۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے:
آئیں ہنس بول کے غم اپنے کم تو کریں
مسکراہٹ غم دوراں کو فراہم تو کریں
خیر مقدم کریں ہر غم کا خوشی سے بڑھ کر
زیست کرنے کے لیے کاوش پیہم تو کریں
۔۔۔۔
گر یہ معیار ظرافت ہے تو کچھ دن میں امیر
مسخرہ مسند فن پر کوئی بیٹھا ہو گا
اور ہم سا کسی چوپال میں برگد کے تلے
اپنی تخلیق پہ سر پیٹ کے روتا ہو گا
۔۔۔
حال کیا میں سناؤں بیوی کا
درد جوڑوں میں اس کے رہتا ہے
درد میرا ہے اس کہانی میں
وہ جو بے درد تھی جوانی میں
۔۔
مولوی مفتی فقیہہ شہر قاضی اور پیر
لوگ پھنس کے رہ گئے ہیں کتنی دستاروں کے بیچ
وہ خم گرد ن،وہ دست ناز وہ ان کا سلام
کیا ادائے دلبری ہے تین تلواروں کے بیچ
حسن میں کیا رہ گیا ہے آج میک اپ کے بغیر
کچھ بھیانک سرخیاں جیسے ہوں اخباروں کے بیچ
۔۔
حاضرین زار و قطار ہنستے رہے!
شاعری کے دور کے بعد نثر کا دور شروع ہوا چاہتا ہی تھا کہ راقم نے صاحب صدر سے اجازت طلب کی، جامی صاحب باہر تک چھوڑنے آئے اور گلہ کرتے رہے کہ تم خاصہ تناول کیے بغیر ہی جا رہے ہو، معلوم ہوا کہ شرکا ء کی ضیافت کے واسطے ’پائے‘ پکوائے گئے ہیں، موسم سرد تھا اور پیشکش تھی کہ دل لبھا رہی تھی، اس محرومی پر دل سے ایک آہ نکل کر آسمان تک اثر لانے کو گئی،کچھ سنبھالا لیا، متزلزل ہوتے ارادے کو مستحکم کیا اور جامی صاحب سے اجازت طلب کی۔ نثری نشست کا احوال جامی صاحب کی زبانی سنیے:
’’ معاف کرنا راشد، تمہارے بغیر پائے کھا کر جانے کی وجہ سے بعد از مشاعرہ میرے سر میں شدید درد ہو گیا، اس وجہ سے مشاعرے کے بعد کی کاروائی تم کو ارسال نہیں کر سکا۔ اب سنو کہ صدر محفل امیر السلام ہاشمی کے جانے کے بعد نثر نگاروں میں سب سے پہلے شجاع الدین غوری صاحب نے اپنا مزاحیہ مضمون کلیات اقبال پڑھا۔ اس کے بعد دلشاد انجم نے یوم اقبال پر اپنا طنزیہ کالم پڑھ کر سنایا۔ پھر انور احمد علوی نے اقبال ساغر صدیقی پر اپنا خاکہ پڑھا اور آخر میں خدیجہ زبیر احمد نے اپنا افسانہ چھوٹی سی بے وفائی حاضرین کی خدمت میں پیش کیا۔ تقریباً نو بجے اس محفل کا اختتام ہوا۔ پائے کے ساتھ حیدرآبادی مرچوں کا سالن بھی تھا اور مٹر پلاؤ بھی۔ میٹھے میں لوکی کا حلوہ تھا۔ کھانے کی باتیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ تمہیں بغیر کھائے جانے کا افسوس بھی ہو اور تمہارے منہ میں پانی بھی بھر آئے۔ اور ہاں ! سب لوگوں کے جانے کے بعد صرف میرے سر میں ہی درد نہیں ہوا بلکہ آسمان بھی بہت رویا کہ ایسی اچھی تقریب اتنی جلدی ختم ہو گئی۔ ‘‘
کہیں آسمان کے رونے کا سبب میری وہ آہ تو نہیں رہی جو سر آسماں اثر لانے کو گئی تھی ؟
٭٭٭
ناریل کے درختوں کے نیچے۔ پھر نئے سلسلے بن گئے ہیں
نجمہ عثمان کے اعزاز میں ایک ادبی نشست
یوں تو ستمبر کا مہینہ کبھی کسی کے لیے ستمگر بھی کہلاتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ اس مرتبہ ہر طرح کی قیامت اگست ہی جھیل گیا، عید آئی تو وقتی طور پر خوف کے سائے کچھ کم ہوئے، لوگ گھروں سے سہمے سہمے نکل تو پڑے لیکن اجنبی علاقوں میں جانے سے کتراتے رہے۔ ایسے میں شہر کے ایک کونے میں مقیم ادیب، شاعر، ناشر، مدیر محترم معراج جامی کی جانب سے عندیہ دیا گیا کہ تین ستمبر 2011 کی شام سن 1960 سے برطانیہ میں رہائش پذیر شاعرہ، ادیبہ و افسانہ نگار محترمہ نجمہ عثمان کے نام ہو گی جو پچھلے چند ہفتوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔ نجمہ عثمان اپنی والدہ کی شدید علالت کی وجہ سے کراچی تشریف لائی تھیں، چند دن قبل ان کی والدہ کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا! انا للہ و انا الیہ راجعون
راقم السطور اپنی منزل پر پہنچا تو پانچ بجے کا وقت تھا اور تقریباً تمام شرکاء تشریف لا چکے تھے۔ کمرہ کتابوں سے گھرا ہوا، کمر ٹکانے کو بھی کتابیں، پیش منظر میں بھی کتابیں اور پس منظر میں بھی کتابیں ہی کتابیں۔ جامی صاحب سے عرض کیا کہ کاغذات کو سہارا دینے کے لیے کچھ عنایت کیجیے تو ایک غیر معمولی حجم کی کتاب ہی پیش کی گئی۔
معراج جامی صاحب نے محفل کا آغاز کیا اور اپنی نظمیں پیش کیں :
خوف آنے لگتا ہے
آدمی کی پستی سے
آؤ کوچ کر جائیں
بے ضمیر بستی سے
—–
ظالموں سے بڑھ کر بھی
ظالم ایک ہوتا ہے
وہ جو ظلم سہتا ہے
اس کو پہلے مرنا ہے
—–
دونوں بے وسیلہ ہیں
اس لیے محبت میں
عہد و پیماں کرتے ہیں
اور وسیلہ ملتے ہی
وہ بھی بھول جائے گی
میں بھی بھول جاؤں گا
سامعین کی جانب سے بھرپور داد ملتی رہی!
رضیہ سلطانہ صاحبہ کو دعوت کلام دی گئی، آپ ایک سرکاری افسر بھی ہیں، کسی نے کہا کہ کچی آبادی کی ڈائرکٹر ہیں، جامی صاحب نے ٹکڑا لگایا کہ ” رضیہ کچی آبادی کی پکی ڈائرکٹر ہیں۔ ”
کاش اس شخص سے پیمان وفا ہو جائے
جو میری بات سنے اور خفا ہو جائے
جا کے منزل ہی پہ دم لیں گے میرے بیتاب قدم
میری پرواز طلب مثل صبا ہو جائے
اس کے بعد نثر و مزاح نگار جناب شجاع الدین غوری نے اپنا مضمون "بایو بجلی-ہائے اور بجلی” پیش کیا۔ انہوں نے اس مضمون کی شان نزول کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا کہ بایو گیس پر ایک اخباری مضمون پڑھنے کے بعد ان کی طبیعت اس جانب موزوں ہوئی۔ اس مضمون میں گوبر وغیرہ کا بیان غالب تھا اور ہم نے دو ایک احباب کو ناک پر رومال رکھ کر اسے سنتے دیکھا!
جامی صاحب نے اگلا نام پکارا۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ ایک افسانہ نگار بھی ہیں اور شاعرہ بھی، آپ بھی ایک سرکاری ملازم ہیں۔ ڈاکٹر نگار نے اپنی ایک خوبصورت نظم خود کلامی پیش کی جسے بہت پسند کیا گیا۔
اس کے بعد تھے حضرت کلیم چغتائی، آپ شاعر و ادیب ہیں، آپ نے ایک طویل نظم پیش کی، عنوان تھا "ماں ” — ماں جیسی ہستی کا ذکر ہو تو دل گداز ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔
سننے والے سنتے رہے اور داد دیتے رہے!
حسن ابدال سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست محترم محمد ظہیر قندیل کراچی میں عرصہ دو ماہ سے مقیم ہیں، پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں کئی مرتبہ ملاقات طے ہوئی مگر :
ًًٍٍ۔۔ اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں تو کبھی ہم نہیں
ملاقات ہوئی تو جامی صاحب کے یہاں
ظہیر صاحب نے غزل پیش کی اور سننے والوں کے من کو بھا گئی:
دلوں میں دوریاں اتنی نہیں تھیں
کبھی مجبوریاں اتنی نہیں تھیں
میری دولت سہارا دے رہی ہے
کہ مجھ میں خوبیاں اتنی نہیں تھیں
میری سب بیٹیوں کی عید ہوتی
خریدیں چوڑیاں اتنی نہیں تھیں
یہاں مارے گئے آہو تھے جتنے
ملیں کستوریاں اتنی نہیں تھیں
میری پرواز ہے جتنی پرندے
تیری لاہوتیاں اتنی نہیں تھیں
شرکاء کی جانب سے فرمائش ہوئی کہ مزید کلام سے نوازا جائے ظہیر صاحب نے ایک اور غزل پیش کی، دو شعر ملاحظہ ہوں :
ناریل کے درختوں کے نیچے
نئے سلسلے بن گئے ہیں
زندگی نے رلایا بہت ہے
اس لیے مسخرے بن گئے ہیں
موخر الذکر شعر (مقطع) پر حاضرین نے اسے ایک اچھوتا خیال قرار دیا!
اس کے بعد منشی احمد انور صاحب نے اپنا ایک مضمون پیش کیا، فرمانے لگے کہ یہ مضمون صاحب خانہ کے اعزاز میں لکھا گیا ہے، نظریں معراج جامی صاحب کی جانب اٹھ گئیں۔۔۔۔۔۔
مضمون کا عنوان تھا ” اردو ادب کا ایدھی”
جامی صاحب اپنے جا بجا و برجستہ فقروں سے محفل کو دلچسپ بنائے ہوئے تھے، مذکورہ عنوان پر احباب نے دو ایک تیر پھینکے، ایک خاتون کی آواز آئی:
” بھئی اس عنوان پر ایدھی کا سرد خانہ یاد آ گیا”
مضمون عمدہ تھا اور مزاحیہ پیرائے میں لکھا گیا تھا، چھوٹے چھوٹے فقرے خوب مزہ دے رہے تھے۔
حکیم عبدالسلام اسعد مظفر گڑھ سے تشریف لائے تھے۔ اہل ذوق ہیں، اردو سے محبت کرتے ہیں، ایک اخبار بھی نکالتے ہیں، انہوں نے ایک غزل پیش کی، احباب نے بھاری دل سے شہر کے دگرگوں حالات کا نوحہ سنا، چند مصرعے ملاحظہ ہوں :
تم چلو گے تو دیکھو گے ہر گام پر
خون ہی خون ہے، خون ہی خون ہے
صبح کے ملبوس پر، دامن شام پر
خون ہی خون ہے، خون ہی خون ہے
اب سر راہ یہاں کوئی کس سے ملے
ہیں سڑک پر بھی ملتے ہیں خطرے بڑے
ہم جہاں ہیں وہاں شارع عام پر
خون ہی خون ہے، خون ہی خون ہے
خواجہ رضی حیدر نے اپنی تین نظمیں پیش کیں، عنوانات تھے پاداش، بوسیدہ لفظ اور واپسی۔ سامعین نے دل کھول کر داد دی، افسوس کہ راقم الحروف انہیں خواجہ صاحب کے جلدی پڑھنے کی وجہ سے محفوظ نہ کر سکا، تقریب کے اختتام پر عرض کیا حضور اجازت ہو تو انہیں نوٹ کر لیا جائے، اس پر خواجہ صاحب نے ایک تبسم فرمایا اور کہا "رہنے دیجیے، میں نہیں چاہتا کہ ان کا حوالہ کہیں آئے، میں ان چیزوں سے دور رہتا ہوں۔ ”
اس موقع پر خامہ بگوش بے طرح سے یاد آئے لیکن اس کا ذکر ہم کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ! (یاد رہے کہ یو ٹیوب پر خواجہ صاحب کی ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ اپنا کلام سناتے دیکھے جا سکتے ہیں )
تین عدد نظموں کے بعد خواجہ رضی حیدر کی پیش کی گئی ایک غزل کا خوبصورت مقطع ملاحظہ ہو:
میں نے پوچھا کہ کوئی دل زدگاں کی ہے مثال
کس توقف سے کہا اس نے کہ ہاں تم اور میں
نجمہ عثمان صاحبہ نے اپنا کلام پیش کیا، والدہ کا غم تازہ ہے، نظم کا عنوان تھا ’پھیلے ہوئے ہاتھوں کی دعا‘، آواز بھرائی ہوئی رہی اور نظم کے آخر میں وہ رو پڑیں :
میں جب بھی وقت کی سنگینیوں کی زد میں آتی ہوں
کوئی کمزور لمحہ جب مجھے آنسو رلاتا ہے
کسی ننھی سی خواہش
اور اپنی بے بسی سے خوف آتا ہے
تو جانے کون سی قوت میرے اندر سماتی ہے
میں اپنی ننھی منی سی وہ خواہش بھول جاتی ہوں
بہت مضبوط ہر کر مسکراتی ہوں
مجھے کامل یقیں ہے
اس گھڑی بھی میری ماں
ہاتھوں کو پھیلا کر دعائیں مانگتی ہے!
نجمہ عثمان کی پیش کی گئی دو مزید غزلوں کے یہ اشعار دیکھئے:
زمانہ ساز ادا کا ہنر سمیٹ لیا
میرے لیے تو نہیں تھا مگر سمیٹ لیا
خیال و خواب کی دنیا کو پاش پاش کیا
وجود اپنا بکھیرا تو گھر سمیٹ لیا
———
کس کو معلوم دکھ کے جنگل میں
کون سی شاخ کس شجر کی ہے
آئینے عکس سے ہوئے محروم
یہ عنایت بھی چشم تر کی ہے
بزرگ شاعر امیر السلام ہاشمی صاحب سے کون واقف نہیں، مزاحیہ شاعری کے میدان میں ایک معتبر نام ہیں، آپ کی مشہور زمانہ تخلیق ” اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں ” کہنے کو تو مزاحیہ پیرائے میں کہی گئی ہے لیکن درحقیقت اپنے اندر تلخ حقائق کو سموئے ہوئے ہے۔
ہاشمی صاحب کے کلام سے محفل کا رنگ بدلا، چہروں پر مسکراہٹ آئی جو اس شہر میں کچھ عرصے سے نایاب ہو چلی تھی:
اس بڑھاپے میں بھی ان حسینوں سے اکثر
بہت بات کرنے کو جی چاہتا ہے
مگر جب ہمیں کوئی کہتی ہے انکل
تو ڈوب مر جانے کو جی چاہتا ہے
—–
یوں تو صورت سے نہایت واجبی سی لگتی ہو تم
اور سانحہ یہ ہے کہ اچھی واقعی لگتی ہو تم
مجھ کو ہے اردو میں ہے شدھ بدھ تم کو میں کیسے پڑھوں
اک حکایت در زباں پہلوی لگتی ہوں تم
——
جو ہوتے پیر تو چھو چھو کے دیکھتے اس کو
اس اس کے بعد دکھانے کو اس پر چھو کرتے
کبھی جو غیر سے وہ گفتگو کرتے
یہ آرزو تھی کہ پیچھے سے جا کے چھو کرتے
جگہ جگہ سے ہے مسکی ہوئی قبائے حیات
ذرا سی جان بھی ہوتی تو ہم رفو کرتے
(یہاں ہاشمی صاحب نے شرکاء سے کہا کہ یہ ذرا سنجیدہ بات ہو گئی)
——-
ہاشمی صاحب نے یہ نظم اقبال سے انتہائی معذرت کے ساتھ لکھی تھی لیکن یہ من حیث القوم یہ ہماری موجودہ انفرادی و اجتماعی صورتحال کی عکاس ہے:
دہقان تو مر کھپ گیا، اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوش؟ گندم، کہ جلاؤں
شاہیں کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے، مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟
کردار کا، گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں، ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی، کوئی زنجیر
دیکھو تو ذرا، محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سِناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی، طاؤس پہ آ کر
مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے، کبھی جی جی کے مرے ہے
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر، جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو اب میں لاؤں کہاں سے
محفل اختتام کو پہنچی، چائے اور فواکہات سے شرکاء کی تواضع کی گئی، گروپ میں تصاویر بنوائی گئیں۔۔ گھر کی تیسری منزل سے لوگ اترتے گئے، مرکزی دروازے پر بھی ایک دوسرے سے تبادلہ خیال جاری رہا، اجنبی لوگ ایک دوسرے سے آشنا ہوئے اور اجنبی نہ رہے، نجمہ عثمان صاحبہ کا حکم تھا کہ راقم السطور بھی تقریب میں شرکت کرے کہ اس سے قبل انٹرنیٹ پر فعال بزم قلم نامی گروپ کے توسط سے رابطہ استوار ہوا تھا، ان کا پیغام محترمہ عذرا اصغر نے پہنچایا تھا، اب مل لیے ہیں اور مزید ملاقاتوں کی بات ہو رہی ہے، نجمہ صاحبہ مزید ایک ہفتہ کراچی میں قیام کریں گی، وہ میرے ساتھ پرانی کتابوں کے اتوار بازار جانا چاہتی تھیں، ادھر جناب معراج جامی نے آگاہ کیا کہ اس پروگرام میں وہ بھی شامل تھے لیکن نجمہ صاحبہ نے آج رات ڈیفنس سوسائٹی کا قصد کیا اور ان کے وہاں چلے جانے سے پروگرام متاثر ہوا!۔۔
مظفر گڑھ والے حکیم عبدالسلام اسعد جنہوں نے محفل میں ’ خون ہی خون ہے‘ سنائی تھی، مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ اگر فلاں علاقے کی طرف جائیں گے تو مجھے بھی لیتے چلیں۔ علاقے کا نام سن کر مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے خون ہی خون رقصاں نظر آتا ہے۔ دریں اثناء اسی طرف جانے والا کوئی مہربان حکیم صاحب کو آواز دے کر اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اور ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
احباب ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہیں !
معراج جامی صاحب کے گھر کے اوپر ناریل کے بے مثال درختوں کا طمانیت بخش سایہ ہے۔ محمد ظہیر قندیل کل صبح حسن ابدال جا رہے ہیں، انہی کے الفاظ میں :
ناریل کے درختوں کے نیچے
پھر نئے سلسلے بن گئے ہیں
راشد اشرف