زمیں کے چہرے پہ جب تلک آسماں کا چہرہ جھکا رہے گا
وصالِ شب کا ہر ایک لمحہ دل و نظر میں بسا رہے گا
مَیں اُس کو اپنی سہیلیوں سے چُھپا کے رکھتی ہُوں اس لیے بھی
کٹی ہوئی انگلیوں کا دکھ تو مرے بھی دل کو لگا رہے گا
مری محبت نے اس کے ہونٹوں کو لطفِ جام و سبو ہے بخشا
مجھے اگر چھوڑ کر گیا تو وہ مے کدے میں پڑا رہے گا
یقینِ کامل ہے مجھ کو آنے میں گر ذرا دیر ہو گئی تو
بچھا کے نظریں وہ میرے رستے میں زندگی بھر کھڑا رہے گا
کبھی مَیں اُس کی کسی شرارت پہ روٹھ بھی جاؤں گی تو مجھ کو
بڑی محبت سے وہ منا کر مرے گلے سے لگا رہے گا
لپیٹ لے گا وہ میری بیعت کو قربتوں کے غلاف میں جب
تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے پہلو میں سر جھکائے رکا رہے گا
منزّہ سیّد