ہم سے دیکھا کہ محبت نے ادا کیا کیا کی
ایک دل قطرئہ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی
کس کو لاگی کہ نہ لوہو میں ڈبایا اس کو
اس کی شمشیر کی جدول بھی بہا کیا کیا کی
جان کے ساتھ ہی آخر مرض عشق گیا
جی بھلا ٹک نہ ہوا ہم نے دوا کیا کیا کی
ان نے چھوڑی نہ طرف جور و جفا کی ہرگز
ہم نے یوں اپنی طرف سے تو وفا کیا کیا کی
سجدہ اک صبح ترے در کا کروں اس خاطر
میں نے محراب میں راتوں کو دعا کیا کیا کی
آگ سی پھنکتی ہی دن رات رہا کی تن میں
جان غمناک ترے غم میں جلا کیا کیا کی
میر نے ہونٹوں سے اس کے نہ اٹھایا جی کو
خلق اس کے تئیں یہ سن کے کہا کیا کیا کی
میر تقی میر