- Advertisement -

ہزاروں سال پہلے

ایک افسانہ از اختر شیرانی

ہزاروں سال پہلے

ہزاروں سال پہلے کا ذکر ہے !
یونان کی اصنامی سر زمین کی آغوش میں، ایک شاعر کی نغمہ پیکرہستی پرورش پا رہی تھی۔۔۔۔۔ !
اُس کا آبائی پیشہ باغبانی تھا۔۔۔۔ وہ خوشگوار مشغلہ، جس میں دن رات پھولوں سے کھیلنے اور اُن کی نشہ آلود رنگینی و نکہت میں ڈوبے رہنے سے بھی دل گھبرا جاتا ہے۔۔۔۔ جوافرادحُسن و جمال کی رعنائیوں اور رنگ و بُو کی دلآویزیوں سے تھک جائیں، اُن سے زیادہ خوش نصیب، اِس خاکدانِ ہستی کی کثافتوں میں اور کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔ ؟
شعروموسیقی سے اُس کو فطری لگاؤ تھا۔ آغازِ طفلی ہی سے، وہ اِن کودو بے نام آرزوؤں کی صورت میں، اپنے دل و دماغ کی معصوم فضاؤں میں موجزن پاتا تھا!
شاعری، موسیقی اور گُلبازی کامستانہ اجتماع ہی کیا کم تھا کہ عمر کے پندرھویں سال میں اُس کو، ایک اور عجیب و غریب اور تند و بے پناہ، مگر گمنام جذبے کا اپنے سینے میں احساس ہوا۔۔۔۔ اُس کافر جذبے کا احساس، جسے شباب باختہ افراد کمالِ حسرت سے یاد کرنے کے عادی ہیں۔۔۔ !
یہ وہ زمانہ تھا۔۔۔۔ کہ دُنیا شباب و دوشیزگی کی والہانہ پرستاربنی ہوئی تھی! فضائے ہستی پر، شعروموسیقی کی آسمانی پریاں، اپنے رنگین اور طلائی پروں کے ساتھ چھا رہی تھیں، اور تمام کائناتِ ارضی پر "دیوتائے عشق "اور اُس کے شوخ و شریر تیروں کی خدائی تھی۔۔۔۔ !
نوجوان شاعر، اِس دنیا میں تنہا تھا، اورشہرسے باہر، ایک بہشت تمثال باغ میں، اپنی زندگی کے بے خود و بے قرار دن، اور جوانی کی بے خواب وسرشار راتیں گزار رہا تھا۔۔۔۔ اُس کے دن بِربط نوازی اور نغمہ سرائی میں بسر ہوتے تھے اور اُس کی راتیں نامعلوم خیالی جنّتوں کے سنہری خوابوں میں کٹتی تھیں۔
ایک شاہکارِ شعرو شباب
بالآخر۔۔۔۔ اُس کی خلش ہائے شعر و شباب سے معموراورسرمستی ہائے نغمہ و خیال سے چُور، زندگی پر ایک دورِ عروج وہ بھی آیا کہ کھِلے ہوئے پھولوں سے اُسکی توجّہ کم،۔۔۔۔ اور رفتہ رفتہ زائل ہوتی گئی اور مست بھرے نغموں سے، اُس کا شوق تشنہ رہنے لگا۔۔۔۔ البتہ نا شگفتہ کلیوں اور پُر از خیال و اِضطراب نغموں سے اُسکی دلچسپی، روز افزوں ترقّی کرنے لگی۔۔۔۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اُس سے سوال کرتا تو شاید وہ کبھی نہ بتلا سکتا کہ اُس کے ذوقِ شعری میں یہ خاموش اور عمیق انقلاب کیونکر رُو نما ہوا۔۔۔۔ ؟
اُس کے، اُس زمانے کے شاعرانہ خیالات واحساسات کی حسین ترین یادگار شاید وہ شگفتہ نظم ہے، جواُس نے کلیوں پر لکھی تھی اور جس کا مطالعہ آج تک یونانی شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کے وجدانِ ذوق کا وظیفۂ ادبی بنا ہوا ہے۔۔۔۔ !
بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ جس رات اُس نے اِس نظم کو، اِلہامی انداز میں موضوعِ افکار بنایا۔۔۔۔ اُس کی حالت کس درجہ کھوئی ہوئی، اور وارفتگی سے لبریز تھی۔۔۔۔ یاوہ رات کے اوّل حصّے سے، جبکہ طلوعِ ماہتاب کی ہلکی ہلکی روشنی، فضاؤں میں ایک غُبار آلود کُہر کی طرح بکھر رہی تھی۔۔۔۔ آخر حصّے تک مسکراتی ہوئی کرنوں کی پھیلی ہوئی چھاؤں میں۔۔۔۔ اِس نظم کو گاتا رہا۔۔۔۔ اور ایک ناقابلِ اظہار سرمستی و نشاط کے عالم میں اپناننّھاساحسین و زر کار بربط بجاتا رہا۔۔۔۔ یہاں تک کہ باغ کے نگہت معمور کُنجوں میں، خوش اِلحان طُیور کی فطرت سرائیاں دفعتاً بیدار ہو گئیں اور لہک لہک کراُسکی ہم نوائی کا فرض ادا کرنے لگیں۔
نہ پھولوں کی تمنّا ہے، نہ گُلدستوں کی حسرت ہے
مجھے تو کچھ اِنہی بیمار کلیوں سے محبت ہے
بے موسم کے پھُول
اُسی زمانے میں ہاں اُسی سنہرے زمانے میں، جس کو زندگی کی صنعت و لطافت کا دورِ عروج کہنا چاہیئے، یونان کے جلیل القدر شاہزادوں اور بہادر نوجوانوں میں، سپارٹا کی حسین شہزادی کا یہ اعلان گونج رہا تھا کہ جو شخص بے موسم کے پھُول لا کر دے گا، شہزادی اُس سے شادی کرے گی۔۔۔۔۔ !
یہ شہزادی اپنے حُسن و جمال اور رعنائی و دِلربائی کی بنا پر، دُور دُور کی فضاؤں کی سجدہ گاہِ خیال بنی ہوئی تھی، وہ پھولوں کی حد درجہ فریفتہ تھی، اور خزاں کے موسم میں بھی، پھولوں سے محروم رہنا، اُس کو گوارا نہ تھا۔۔۔۔ !
خزاں کا دَور شروع ہو چکا تھا، باغوں میں چاروں طرف، بے برگی وافسُردگی کا منظر رُو نما تھا۔۔۔۔ مگر شہزادی کی شرط سے (جو حقیقتاً شہزادی کے آسمانی اور ملکوتی حُسن کا ادنیٰ اعتراف تھی) عہدہ برا ہونے کے لیے بیسیوں شہزادے اور پہلوان قسمت آزمائی کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔۔۔۔ بے موسم کے پھولوں کی تلاش میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا گیا۔ اکثر نے ہار تھک کر، آسمانی دیوتاؤں سے اِلتجائیں کیں، دعائیں مانگیں، مَنّتیں مانیں،۔۔۔۔ مگر گُلِ مراد ہاتھ نہ لگا، پرنہ لگا۔۔۔۔ اور تلاش وجستجوکی ایک طویل مدّتِ آوارگی کے بعد، یہ طغیانیِ جوش و خروش، جھکتے ہوئے طوفان، اورشکست ہوتے ہوئے حباب کی طرح فرد ہو گئی۔۔۔۔
شہزادی کا اعلان، شہزادوں اور پہلوانوں ہی تک محدود نہ تھا، بلکہ یہ ایک صلائے عام تھی، جس پر ہر غریب و امیر کو اپنی اپنی تلاش وجستجو کی بنیاد رکھنے کی اجازت تھی اور یہی وجہ تھی کہ نوجوان شاعر بھی اِس دلچسپ اعلان سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا۔۔۔۔ اُس نے اپنے باغ کے مُرجھائے ہوئے پودوں کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھا، مگرحسرت بھری نگاہ پھُول نہیں پیدا کر سکتی تھی۔۔۔۔ ! !
شعر و نشاط کے موسم میں!
نوجوان شاعر کی معصومیتِ شباب میں، شہزادی کے اِس اعلان نے، ایک خاموش مگر پُر از اِضطراب ہیجان پیدا کر دیا تھا۔۔۔۔ وہ ایک ایسا پُرسکون دریا تھا، جس کی تہ میں تلاطم برپا ہو!
اُس کی تمنّا اور پاکیزہ زندگی، نشاط و بیخودی کے اُس دورسے گزر رہی تھی، جبکہ کائناتِ ہستی کا ہر ایک ہلکے سے ہلکا جھونکا، معصوم روحوں میں، ایک گُدگُدی بن کر اُتر جانے کا عادی ہوتا ہے۔۔۔۔ اُس کے لیے دُنیا کچھ نہ تھی، مگر ایک لذّتِ محیط! ایک نشاطِ رقصاں!۔۔۔۔ اُس کے نزدیک زندگی کے کوئی معنی نہ تھے، لیکن ایک نویدِ کیف! ایک پیامِ سرشاری!۔۔۔ جوانی کا کافر ماجرا احساس۔۔۔۔ اور احساس بھی اوّلیں، اُس کے اُبلتے ہوئے سینے میں کوئی نامعلوم شے بیتاب تھی! اور اُس کے دھڑکتے ہوئے دل کے تاروں میں ایک خاموش مگر بے ضبط جوش لرز رہا تھا۔۔۔۔۔۔ !
حقیقت میں اُس کی موجودہ زندگی اِک موسمِ نشہ وسّروراور ایک عالمِ نگہت ونُورسے مراد تھی جس کی وارفتہ کاریاں اُسے سراپا اِضطراب اور سراپا اِلتہاب بنائے ہوئے تھیں۔۔۔۔ پرستش و عبودیت کا ایک پُرسکوت مگر بے قرار جذبہ تھا، جواُس کی رگ و پے میں جاری و ساری تھا۔۔۔۔ !
کچھ اِنہی۔۔۔۔ کچھ ایسی ہی، بے اختیاریوں کی کشش تھی، جواُسے ایک عالمِ سرخوشی میں، کشاں کشاں قریب کے سبزہ زاروں میں لے جاتی تھی۔۔۔۔ اورپھرسبزے پر ایک بے خودانہ لغزش! فضا میں ایک شاعرانہ نغمہ! یاپھرسنسان وُسعت میں ایک آوارہ، ایک لا اُبالیانہ، ایک بے پروایانہ خرام۔۔۔۔ اُس کی حساسیت کا مقصودِ بیخودی ہوتا تھا۔۔۔۔ !
ایک رات۔۔۔۔ جبکہ چاندنی کی شفّاف اور سیمگوں شعاعیں، دنیا کی وسعتوں میں نُوروسرور کے پھُول برسا رہی تھیں۔۔۔۔ نوجوان شاعر کی مستانہ خرامی، اُس کوحسبِ دستوراپنے مسکن سے دُور، بنفشے کی خزاں رسیدہ وادی میں آوارہ کر رہی تھی۔۔۔۔ شباب کے حسین و لبریزِ شعریت نغمے، اُس کی زبان پر جاری تھے۔۔۔۔ وہ نغمے، جن کے پردوں میں معصومّیتِ خیال اور حرارتِ شباب کے شعلے دبے ہوئے تھے۔۔۔۔ اور وہ اپنی سرودخوانیوں میں مست، شعر طرازیوں میں سرشار، ایک بیخودی وسُکرکی حالت میں۔۔۔۔ گھنیرے درختوں سے لدی ہوئی، چھُپی ہوئی وادیوں کو طے کرتا ہوا دُور بہت دُور، ایک سادہ و بے رنگ سبزہ زار میں نکل آیا تھا، جس میں کوئی درخت نہ تھا! کوئی پودا نہ تھا!۔۔۔۔۔۔۔ مگر ایک۔۔۔۔ قدرشناس نگاہوں سے دُور ایک لالہ۔۔۔۔ ایک لالۂ صحرائی۔۔۔۔ ! !
شاعر اور لالۂ صحرائی
‘‘۔۔۔۔ میری رنگینیاں غارت ہو چکی ہیں اور میری نگہتیں آوارہ، میری شادابیاں تباہ ہو چکی ہیں، اور میری بہاریں مضمحل!۔۔۔۔ یہ خزاں کا بے کیف موسم، یہ صحرا کی بے رنگیاں۔۔۔۔ ! نہ دامانِ اَبرکی سرشاریاں نصیب ہیں۔ نہ آغوشِ جوئبار کی تر و تازگیاں۔۔۔۔ مگر آہ! یہ صحرائی فضا میں گونجتی ہوئی تھرّائی ہوئی موسیقی۔۔۔۔ ! جو ایک بھُولے بِسرے خواب کی طرح، مجھ میں بالیدگیِ نشاط پیدا کر رہی ہے۔۔۔۔ کاش میں اِسے قریب سے۔۔۔۔ بہت قریب سے، اپنے دامنِ افسردگی میں بھر لوں۔۔۔۔ ! آ! نوجوان آنے والے، بہار کے نغمے سنانے والے شاعر! آگے آ! اور مجھے بہار کا ایک مستانہ نغمہ سنا۔۔۔۔ ! ”
‘‘۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے، اِس ویران وسعت میں، اِس سنسان فضا میں کسی بلبل کی آواز اِنتشارِ نگہت میں مصروف نہیں ہوتی۔۔۔۔ ! ”
نوجوان شاعر نے افسوس کے لہجے میں کہا:۔
"بلبل! آہ، بلبل کہاں؟ جب منّتِ باغبان سے محرومی ہو تو بلبل کی آواز کیوں کر نصیب ہو سکتی ہے۔۔۔۔ بلبل و گل کی رنگینیوں اور شادابیوں میں جس خون کی سرخی صَرف ہوتی ہے، اُس کی تعمیر باغبان کے پسینے کی منّت کش ہوا کرتی ہے۔۔۔۔ کیونکہ اگر باغباں نہ ہو تو باغ نہ ہو، پھُول نہ ہوں! اُن کی نگہت افشانیاں نہ ہوں۔۔۔۔ اور یہ نہ ہوں تو بلبل کہاں سے آئے ؟ اُس کی نغمہ طرازی کس لئے ہو؟ نغموں میں گدازِ شعریت اور فشارِ جذبات کا رنگ کیونکر پیدا ہو۔۔۔۔ ؟ ”
یہ سن کر نوجوان باغبان مسکراپڑا۔۔۔۔ اور لالۂ صحرائی کے پاس آ کر، مست بھری نگاہوں سے، اُس کی خزاں رسیدہ حالت کا مطالعہ کرنے لگا۔۔۔۔ کس قدر دلگداز منظر، کیسامرجھایا ہو اسماں تھا۔۔۔۔ !
بربط کے تاروں نے !
لالۂ صحرائی نے پھر غیر معمولی اشتیاق کے لہجہ میں کہا "بہار کا نغمہ! حسین مغنّی!۔۔۔۔ اِس چاندنی رات میں، تیری معصوم صورت، لازوال اور مقدس دیوتاؤں کی طرح، پُر عظمت اور شاندار نظر آتی ہے۔۔۔۔ خدارا ایک بہار کا نغمہ سُنا،۔۔۔۔ میری کُملائی ہوئی کلیاں، مدّت سے ایک شاداب برساتی راگ کی پیاسی ہیں اور میری سوکھی ہوئی پتّیاں نشاطِ بہار کے مستانہ ترانوں کے لیے دامن دراز۔۔۔۔ خوبصورت باغبان! مجھے ایک ایساپُرکیف نغمہ سنا، جیسا کہ عظیم الشان باغوں میں، مسکراتے ہوئے پھولوں کے حضور میں، کوئی بلبل، اُس وقت سناتی ہے جب تمام نگہت بھری فضاؤں پر، انوارِ صبح گاہی اور جلوہ ہائے طلائی کاحسین پردہ پڑ جاتا ہے، اور رنگین و معصوم کلیوں کی پیالیاں، اِس شرابِ نُور و نغمہ کو مچل مچل کر اپنے دامن میں بھر لینا چاہتی ہیں۔۔۔۔ ! ”
نوجوان شاعر نے اپنا بربط سنبھالا اور۔۔۔۔ بیک جُنبشِ انگشت، فضا میں ایک زخمی راگ پھیل گیا۔۔۔۔ اور دیر تک اِسی طرح بربط بجاتا رہا! اور جوش و خروش کے عالم میں بجاتا رہا۔۔۔۔ مگر لالے کی بیقراری وافسردگی کو ذرا تسکین نہ ہوئی۔۔۔۔
بالآخر لالے نے کہا:۔
"بربط کے تاروں نے اپنے عجز کا اعتراف کر لیا ہے، اُن کے پردوں میں میرے درد کی دوا نہیں۔۔۔۔ میری شادابیِ حیات، تیرے نورانی گلے کی رگوں میں خوابیدہ ہے۔۔۔۔ اور خدائے خدایاں ( جیوپیٹر ) کی بھی یہی تقدیر ہے ! ”
سرودِ شبانہ!
ہیبت ناک صحرا میں، جس کی ویرانی و وحشت کو، چاندنی نے حسین بنا دیا تھا ایک آبشارِموسیقی موجیں مارنے لگا، ایسامعلوم ہونے لگا گویا زمین وآسمان نے، اپنی تمام ارضی وسماوی موسیقی کے لا تعداد خزانوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔۔۔ اور فضائے لامتناہی میں، چارسُو، پُر شور نغموں کے طوفان اُمنڈ رہے ہیں۔۔۔۔ !۔۔۔۔ نغمے کی پہلی ہی جنبش نے ملکہ بہار جادو کے سحرِبہارکامنظرجلوہ نما کر دیا۔۔۔۔ لالے کی زخمی افسردگیوں نے بہار و شادابی کی کروٹ لینا شروع کی۔۔۔۔ شاخوں میں نور و نگہت کی روح سمانے لگی۔۔۔۔ پتیوں میں تر و تازگیِ حیات کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔ رگ رگ میں رنگینیوں اور شادابیوں کے طوفان مسکرانے لگے۔۔۔۔ اور لالہ صحرائی ہرا بھرا نظر آنے لگا۔۔۔۔ !
نوجوان شاعر کی حیرت سامانیاں، اندازہ سے باہر تھیں۔۔۔۔ اُس کے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ محض اُس کے سرودِ شبانہ کے اثر سے لالہ صحرائی بے موسم کے پھول کھلا سکتا ہے۔۔۔۔۔
‘‘۔۔۔۔ او نوجوان شاعر! تجھ پر دیوتاؤں کی برکت کاسایہ ہو! تیری نوجوانی اِسی طرح شاداب رہے ! اور تیری معصومیت اِسی طرح تر و تازہ!۔۔۔۔ تیرے مقدّس اور معصوم نغموں نے مجھے نئی زندگی بخشی ہے، اور اگرچہ اِس آبِ حیات کا اثر صرف صبح تک رہے گا۔ تاہم عدم کے ایک طویل اور ناگوارسکون وجمودسے، بہرحال، زندگی، آہ، خوبصورت اور شیریں زندگی، رنگین اور شاداب زندگی کے چند لمحے زیادہ قیمتی ہیں۔۔۔۔ دُنیا زندگی کی حریص ہے، اور میں بھی اِس سے مستثنیٰ نہیں۔۔۔۔ انسان نادان ہے، جو موت کا ذائقہ چکھے بغیر موت کو زندگی سے زیادہ پُرسکون اور راحت افزا بتاتا ہے۔ مجھ سے پوچھو، میں نے موت اور زندگی، دونوں کی کیفیتوں سے لطف اُٹھایا ہے۔۔۔۔ زندگی، آہ زندگی، اِن دُور کے خوابوں سے کہیں زیادہ حسین ہے۔۔۔۔ بہرحال اب جب کبھی تیرے باغ کے پھُول ختم ہو جائیں، اور لالہ ویاسمین کی ٹہنیوں پر ایک مرجھائی ہوئی کلی بھی نظر نہ آئے۔۔۔۔ تواُس وقت تُو میرے پاس آنا اور مجھے ایک ایساہی بہار پرور نغمہ سنا کر، جس قدر پھولوں کی ضرورت ہولے جانا! ”
نوجوان شاعر نے فرطِ مسرّت سے بیخود ہو کر، بہت سے پھول توڑ کر دامن میں بھر لئے۔۔۔۔ اور اب وہ بیقرار تھا کہ کسی طرح شاہزادی تک پہنچ جائے۔
شہزادی کے آستانے تک
اُسی صبح، شہزادی کے آستانے پر، ایک نوجوان شاعر بربط ہاتھ میں لئے دامن میں پھُول بھرے، شہزادی کے حُسن و جمال کی شان میں شعر گاتا، اور نغمے سناتا۔۔۔۔ نظر آیا۔۔۔۔ جس کی زبان پر یہ شعر تھا
طلب سے چُنتے پھرتے ہیں ہم پھول گلشن میں
صبا شاید گرا دے اُن کو جا کر تیرے دامن میں!
۔۔۔۔ شہزادی کو مطّلع کیا گیا۔۔۔۔ اور یہ مفلوک الحال، مگرمجسّم نغمہ و شعر نوجوان، فوراً شہزادی کے حضور میں بلا لیا گیا۔۔۔۔ !
شہزادی، اپناننّھاسازرنگارتاج پہنے، ایک مخملی صوفے پر آرام فرما تھی۔۔۔۔ شاعر آگے بڑھا اور اُس کے نازنین قدموں پراُس نے اپنا دامن خالی کر دیا۔۔۔۔ مسند پر لالے کے شاداب و شگفتہ پھولوں کا ڈھیر نظر آنے لگا۔
یہ دیکھ کر شہزادی، اپنی معصوم اور طِفلانہ مسرّت کے جوش کو ضبط نہ کر سکی۔ بے اختیاراُس کی زبان سے نکل گیا:۔
"آہا ! کیسے پیارے پھُول ہیں! ”
اور۔۔۔۔۔۔۔ وہ جلد جلد پھولوں کوسمیٹنے لگی!
شاعر نے اُنہی پھولوں کا ایک خوبصورت ہار نکالا اور چاہا کہ شہزادی کے گلے میں ڈال دے۔۔۔۔ اِتنے میں شاہزادی کی ایک خواص آگے بڑھی اور بولی:۔
"ٹھہرو! ابھی اِس کا وقت نہیں آیا! ہماری شہزادی کو پھولوں سے بہت محبت ہے، اِس لیے پہلے تمھیں ایک ماہ تک اِس شرط کی کامیابی کا ثبوت دینا پڑے گا! ”
شاعر نے جواب دیا "میں اِسکی تعمیل کروں گا، مگر کہیں خزاں کا تمام موسم اِسی امتحان میں نہ گزر جائے، میری تمنّا ہے کہ ایک مہینے کے اندر اندر مجھے شہزادی کے گلے میں ہار ڈالنے کی اجازت دی جائے ”
شہزادی کی شرمگیں آنکھوں میں ایک ہلکی ہلکی مسکراہٹ جھلکنے لگی۔
وظیفۂ صبح گاہی!
اور۔۔۔۔ اب نوجوان شاعر نے، جس کی سرشارجوانی اور پُر شوق شاعری طوفان کی طرح بے تاب تھی، اپنا وظیفۂ صبح گاہی بنا لیا تھا۔۔۔۔ کہ وہ روز پچھلی رات کو اُٹھ کر صحرا کی طرف جاتا۔۔۔۔ اور چند لمحے لالۂ صحرائی کے پاس بیٹھ کر ایک ایسا اَچھوتا نغمہ سناتا۔ جس کے اثر سے لالے کی شاخوں پر شوخ و شاداب پھول کھل جاتے۔۔۔۔ شاعر اُن کو اپنے دامن میں بھر کر لے آتا اور شہزادی کے قدموں پرلے جا کر ڈال دیتا۔۔۔۔ خزاں کا ایک مہینہ اِسی قسم کی گُل آفرینی اور گُل چینی میں ختم ہو گیا۔۔۔۔ !
"میرے شاعر "!
‘‘۔۔۔۔ میرے شاعر! کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ جب خزاں کے اِس دَور میں، کسی کو پھولوں کی ایک پنکھڑی تک نصیب نہ ہو سکی، تم ہر صبح اِتنے اور ایسے شگفتہ پھُول لے آتے ہو۔۔۔۔ ! آخر یہ پھُول کہاں سے لاتے ہو۔۔۔۔ ؟ ”
عروسی کی پہلی رات۔۔۔۔۔ نے شاعر کے شباب و شعر کی دنیا میں ایک ہنگامۂ ذوق برپا کر دیا تھا۔۔۔۔۔ شہزادی نے شرمائے ہوئے لہجے میں دریافت کیا۔۔۔۔ مگر نوجوان شاعر! اُس کے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکا، کیونکہ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ اُس کے نغمے کے اثرسے لالہ کیونکر پھُول کھلا دیتا ہے۔۔۔۔ ؟
"کیا تم ساحرہو؟ کیا یہ پھُول کسی دیوتا کی مدد سے حاصل ہوتے ہیں؟ ”
"نہیں!۔۔۔۔ صرف اِتنا جانتا ہوں کہ دُور تمھارے محل سے بہت دُور، ایک سنسان جنگل میں، ایک لالے کا پودا ہے۔۔۔۔ جب میں اُسے ایک گیت سُناتاہوں تو وہ پھُول کھِلا دیتا ہے،۔۔۔۔ یہ مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ وہ ایسی کونسی چیز میرے نغموں میں ہے، جس کی تاثیر لالے میں پھُول پیدا کر دیتی ہے۔۔۔۔ ! ”
"کیسے تعجّب کی بات ہے !۔۔۔۔ مگر ہائیں، کیا صبح ہو گئی؟۔۔۔۔ تارے جھلملانے لگے۔۔۔۔ ”
"تو کیا صبح ہو گئی، کہیں مجھے تمھارے پھُول لانے میں دیر نہ ہو جائے۔۔۔۔ ”
۔۔۔۔ آج کی رات۔۔۔۔ ! جبکہ دو روحوں نے، دو روحوں کی محبت نے باہم پیمانِ وفا باندھا تھا۔۔۔۔ جوشِ خلوص اور نشاطِ محبت کے رقیق اثرات میں۔۔۔۔ کیا ہرج تھا، اگر شہزادی کہہ دیتی کہ "اب مجھے پھُولوں کی ضرورت نہیں "اب تو مجھے وہ پھُول مل گیا ہے، جس کی بہارسے یہ تمام تر کائناتِ ارضی زندہ ہے۔
"اور اِس طرح شہزادی اپنے حسّاس شاعر کو روک لیتی۔۔۔۔ مگر عورت! آہ، عورت! کس درجہ ستم ظریفی کا پیکر ہے۔۔۔۔ !
شاعر گھبرا کربسترسے اُٹھا، اور پچھلی رات کے جھلملاتے ہوئے تاروں نے دیکھا کہ وہ ایک ادائے بیخودی، ایک انداز اِضطراب کے ساتھ صحرا کی طرف جا رہا تھا اُس کی رفتار مستانہ تھی اور اُس کی ہیئتِ نشاط آلود۔۔۔۔ ہرچند کہ اُس کی مسرتوں کی کوئی انتہا نہ تھی۔۔۔۔ مگر اُس کی صورت اُس بیمار کی سی نظر آتی تھی جس نے ابھی ابھی غسلِ صحت کیا ہو۔۔۔۔ اُس کی روح کچھ ایسا اضمحلال محسوس کرتی تھی، جیسے وہ کلی، جس سے خزاں نے رنگ و بو چھین لیا ہو، اُس کی ظاہریت و معنویت بحیثیتِ مجموعی، ابر کے اُس رنگین پارے کی طرح تھی، جو برس کر کھُل سا گیا ہو، یاپھراُس بجلی کی طرح جوبرستے ہوئے بادلوں میں جھلملایا کرتی ہے۔۔۔۔ ! حسبِ معمول! لالۂ صحرائی کی پتیوں پراُداسی چھا رہی تھی۔۔۔۔ اور بالو ریت کے ذرّوں کو چومنے کے لئے سورج کی پہلی کرن، آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ جس وقت شاعر، اپنی پھولوں سے کھیلنے والی "دلہن "کے لئے پھول لینے لالۂ صحرائی کے پاس آیا۔۔۔۔
اُس نے اپنے بربط کے تاروں کو بیک حرکتِ انگشت چھیڑا اورحسبِ معمول وہی بہار پرور نغمہ سنانے لگا۔۔۔۔ وہ گاتا رہا اور برابر گاتا رہا۔۔۔۔ گُزری ہوئی رات کوسرمستیوں کی تکان کے باوجود، اُس کی روح۔۔۔۔ آج، ایک عورت، ایک پیکرِ جمال عورت کے ہونٹوں سے ٹپکنے والی شرابِ زندگی سے مخمور تھی۔۔۔۔ اور جب کبھی اُسے رات کے خواب نما واقعات کا خیال آتا۔ اُس کی مضمحل حالت میں، ایک فوری جوش پیدا ہو جاتا تھا۔۔۔۔ !
بالآخر۔۔۔۔ اُس کا نغمہ ایک نگاہِ اُمیدسے تبدیل ہو گیا۔۔۔۔ اور اُس نے پھولوں کو توڑ کر، دامن میں رکھ لینے کے ارادے سے لالے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ اُف۔۔۔۔ کس قدرمایوس نظارہ تھا۔۔۔۔۔ ! !
لالے کی شاخیں پھولوں سے محروم تھیں۔۔۔۔ !
وہ حیرت اور پریشانی کے عالم میں گھبرا کر کھڑا ہو گیا، اور آنکھیں مل مل کر، پودے کے چاروں طرف پھرپھرکراُس کی شاخوں کو، اُس کی پتیوں کو گھُور گھُور کر دیکھنے لگا، مگر لالے میں کوئی پھول نہیں کھِلا تھا۔۔۔۔ !
"یک بیک۔۔۔۔ لالے کی افسردہ مگر پُر جوش آواز بلند ہوتی ہے :-
‘‘۔۔۔۔ بے وقوف انسان! میرے پھولوں کو صرف معصوم نوجوانوں کے نغمے اور دوشیزہ نازنینوں کے سانس زندہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔ ! تم سے احمقوں کی آواز، جو اپنے شباب کو آلودہ و داغدار کر چکے ہوں، اور کسی عورت کا دامن چھُو آئے ہوں۔۔۔ میرے پھولوں میں شگفتگیِ حیات نہیں پیدا کر سکتی، وہ شگفتگیِ حیات جو صرف نوجوانوں کے نغموں کا حِصّہ ہے !۔۔۔۔ شادی ہو یا گناہ۔۔۔۔ شباب کی آلودہ دامنی، دونوں جگہ رُو نما ہوتی ہے۔۔۔۔ اِس لئے اب جاؤ، اور عمر بھر اپنے شباب رفتہ کا ماتم کرتے رہو۔۔۔۔۔ ”
آخری پھول!
صبح کو، آفتاب کی طلائی کرنوں نے دیکھا کہ لالے کے پاس ایک نوجوان کی لاش پڑی ہوئی ہے۔۔۔۔ اور لالے کی شاخ پر ایک بُلبل کچھ ایسا ماتمی نغمہ سنا رہی ہے۔
"نوجوان شاعر مر گیا ”
"وہ جس کے نغمے بے موسم کے پھول کھلا دینے پر قادر تھے ! اور جس کی آواز معصومیتِ شباب سے لبریز تھی ”
اُس پر بے صبری کا الزام نہیں لگایا جا سکتا!۔۔۔۔۔۔ اُسے معلوم نہ تھا کہ پھولوں کی شگفتگی کا راز۔۔۔۔ صرف اُس کی معصومیت میں پنہاں ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ اب۔۔ یہاں ایک دائمی، ایک ابدی نیند سورہا ہے !
اُدھر شہزادی پھولوں کے انتظار میں بیٹھی ہے ! اب یہ قیامت تک اِسی طرح سوتا رہے گا۔
دیکھیں۔۔۔۔۔۔ شہزادی کب تک انتظار کرتی ہے "!
بُلبل کا نغمہ ختم ہو گیا، لالے میں کچھ پھول بھی کھل گئے مگر اُن میں وہ شگفتگی و شادابی نہ تھی جسے صرف ایک نوجوان کی معصوم آواز کا خون ہی پیدا کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ ! !

اختر شیرانی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از اختر شیرانی