واشنگٹن ڈی سی امریکہ کا دارالخلافہ ہے، جسے انکل سرگم غریب ملکوں کا "داراللفافہ” بھی کہتا ہے۔سرگم کا کہنا ہے کہ امریکہ کا دارالخلافہ غریب ملکوں کا "داراللفافہ” یوں بن جاتا ہے کہ یہاں سے غریب ملکوں کو وہ لفافے روانہ کئے جاتے ہیں جن میں "شاہ جہان” (امریکی صدر) کے احکامات یا انعامات ہوتے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی کی مشہور عمارت ” کیپٹل بلڈنگ ” کے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں اپنے علاقے کے مغل بادشاہ شاہ جہان کا تاج محل یاد آ گیا جس کے بارے میں شکیل بدایونی نے کہا کہ :
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اور اس شعر کی مخالفت میں ساحر لدھیانوی نے یوں کہا تھا کہ :
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
انکل سرگم نے بھی کیپٹل بلڈنگ کو دیکھتے ہی اسے تاج محل کی مناسبت سے "راج محل ” کا نام دیتے ہوئے یہ شعر کہہ ڈالا کہ :
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں راج محل
ساری دنیا پہ حکومت کی نشانی دی ہے
"امریکی شاہ جہان” کے اس "راج محل” کا سنگ بنیاد 1793 عیسوی میں جارج واشنگٹن نے رکھا اور اس کے بعد اس کی تعمیر و زیبائش میں ترامیم ہوتی رہیں۔ کیپٹل بلڈنگ کے گنبد پر ایک خاتون کا مجسمہ نصب ہے جو امریکہ میں خواتین کی آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ میں خواتین کو اتنا زیادہ لباس حاصل نہیں جتنی آزادی حاصل ہے۔ ماسی مصیبتے کا مشاہدہ ہے کہ امریکہ عورتوں، بچوں اور پالتو جانوروں کے لیے جنت ہے۔ یہاں عورت کو سوائے صدر بننے کے باقی ہر چیز میں مردوں جتنے حقوق حاصل ہیں۔ بچے گھروں میں 18 سال ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور 18 سال کے بعد ماں باپ سے یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یہ ہمارے ہاں کے سیاستدان لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔
امریکیوں کی اپنے جانوروں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنے والدین کی وفات پر رنجیدہ نہیں ہوتے، ہاں، اپنے کتے بلی کے بیمار ہونے پر دھاڑیں مار مار کے روتے ہیں۔ پالتو جانوروں کی خوراک لیبارٹری ٹیسٹ ہونے کے بعد جانوروں کے لئے مخصوص سپر اسٹوروں میں رکھی جاتی ہے۔ خوراک کی پیکنگ اتنی خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتی ہے کہ اگر تھرڈ ورلڈ کا کوئی غریب انسان دیکھے تو کتوں کی غذائیت سے بھرپور عمدہ خوراک دیکھ کر اس کا جی بھونکنے کو کر اٹھے۔ جانوروں کے علاج معالجے کے لئے ہم نے یہاں جو کلینک اور ہسپتال دیکھے تو ہمارا دل اپنے ملک کے ہسپتال یاد کر کے وہاں کے مریضوں کی طرح تڑپ اٹھا۔
جانوروں کے بعد یہاں بچوں کو جو سہولتیں میسر ہیں وہ ہمارے کسی بڑے سرکاری افسر کو ہی میسر ہو سکتی ہیں۔ امریکن والدین بچوں پر انگلی اٹھانا تو کجا، انہیں گھور کر بھی دیکھیں تو بچے نائن ون ون پر کال کر کے پولیس بلوا لینے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ چنانچہ ماں باپ کا دل اگر کبھی بچے کو گھورنے کو کرئے بھی تو وہ سیاہ چشمہ پہن کر گھور لیتے ہیں، تا کہ ان کی تیکھی نظروں کو بچہ دیکھ نہ پائے۔ اسی طرح اگر والدین کا اپنے بچوں کو ڈانٹنے کو جی کرئے تو انہیں اپنے دل میں ہی برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔
بچوں کے بعد یہاں کی اشرف المخلوقات میں معذور افراد سر فہرست شمار ہوتے ہیں۔ معذور افراد کے لئے ہر دفتر اور اسٹور کے باہر پارکنگ کی جگہ کچھ اس طرح مخصوص ہوتی ہے کہ اسے دیکھ کر اچھے بھلے انسان کو اپنے معذور نہ ہونے کا افسوس سا لگ جاتا ہے۔
بقول سرگم، امریکیوں کی زندگی میں سے ٹی وی، کمپیوٹر اور روڈ سائنز نکال دیئے جائیں تو ان کی حالت ویسی ہی ہو جائے گی جیسے بینظیر، عمران خان اور مسرت شاہین کے بغیر ان کی سیاسی جماعتوں کی۔ امریکی صبح سویرے اپنے گھروں سے ٹی وی پر موسم کا حال دیکھ کر نکلتے ہیں، ریڈیو پر ٹریفک کا حال سنتے ہوئے گاڑی چلاتے ہیں، انٹرنیٹ پر شاپنگ کرتے اور روڈ سائئنز پڑھتے ہوئے شام کو واپس گھر پہنچتے ہیں۔ امریکی سفید فام باشندے انسانوں میں اپنے کالوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے سیکورٹی کے آلات پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
ہم اگر دنیاکے نقشے پر امریکہ کو دیکھیں تو امریکہ ہمیں باقی دنیا سے الگ اور الٹی جانب دکھائی دے گا۔ شاید اسی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ نے اپنا ہر کام وکھری ٹائپ کا ہی اپنایا ہوا ہے۔ یہاں ٹریفک کے سوا ہر حرکت الٹ کی جاتی ہے۔ بجلی کے سوئچ الٹی جانب یعنی اوپر کی طرف آن ہوتے ہیں، ٹوپیاں الٹی پہنی جاتی ہیں، انگلش وکھری ٹائپ کی بولی جاتی ہے، عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ ڈھانپا جاتا ہے۔ امریکہ میں آپ کو سڑک پر چلتا ہوا کوئی بندہ شاذ و نادر ہی نظر آئے گا۔ سڑک پر پتھر مارنے تک کو نہیں ملے گا۔ رہائشی علاقے میں اتنی خاموشی ملے گی کہ قبرستان کا گمان ہو گا۔ عرب ملکوں کی طرح امریکہ میں سڑکوں پر کوئی گورا آنکھ میں ڈالنے تک کو نہیں ملے گا۔ اس الٹی دنیا میں بسنے کے لئے تیسری دنیا کے سیدھے سادے لوگ اپنے تن، من، دھن اور بال بچوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گرین کارڈ پانے کے لئے اپنی جوانی دن رات گیس اسٹیشن، اسٹور اور ٹیکسی چلانے میں کھو دیتے ہیں۔ اسی الٹی دنیا میں بسنے والی ایک پاکستانی شاعرہ نے کیا خوب کہا ہے کہ :
قسمت کی ریکھائیں سیدھی کرنے کو
الٹی جانب دنیا کے ہم آن بسے
فاروق قیصر