آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاسلامی گوشہ

جھوٹی بات پھیلانے کی سزا

اویس خالد کا اردو کالم

خالق کائنات نے سورۃ الحج کی آیت نمبر30 میں ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ”سو تم بتوں کی نجاست سے اجتناب کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو”۔قرآن کے موضوعات کو سمجھنے کے لیے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ جہاں مالک کائنات نے ایک ہی آیت میں دو مختلف موضوعات کو بیان فرمایا ہے تو بھلے وہ ظاہر میں مختلف ہوں مگر ان میں کچھ مماثلت ضرور ہے جس کا سمجھنا بڑا ضروری ہے۔مثال کے طور پرباقی عبادات کا ذکر الگ ہے لیکن اکثر مقامات پر نماز کے ساتھ زکوۃ کی ادائیگی کا حکم ہے۔مماثلت یہ ہے انسان جسم و روح کا مرقع ہے تو پس زکوۃ بدن کی خوراک کا بندوبست ہے اور نماز روح کی غذا کا اہتمام ہے۔مندرجہ بالا آیت مقدسہ میں دو باتیں بیان ہوئیں،پہلی کہ بتوں کی نجاست سے بچنا اور دوسرا جھوٹ کی نحوست سے بچنا۔ان دونوں مختلف باتوں میں جو مماثلت ہے وہ انسان کے رونگھٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔ بتوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق بھی انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دینے والا کفر ہے اور جھوٹ ایک گناہ کبیرہ ہے۔یعنی شریعت کی رو سے پہلا عمل کفر ہے اور دوسرا عمل گناہ کبیرہ ہے۔فرق ہے لیکن ابو داؤد شریف میں: 3599 حدیث ہے۔”ایک دن آقاؐ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو ایک دم اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا:جھوٹی گواہی دینے کا اتنا ہی گناہ ہے جتنا رب کے ساتھ شرک کرنے کا گناہ ہے اور پھر آپؐ نے سورۃ الحج کی آیت نمبر 30کی تلاوت فرمائی”۔یعنی معلوم یہ ہوا کہ ایک مشرک اور کافر کو جو سزا ملنی ہے جھوٹی گواہی دینے والے کو بھی وہی سزا دی جائے گی۔ استغفراللہ۔بخاری شریف میں:6096 پر حدیث مبارکہ ہے”نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس گذشتہ رات خواب میں دو آدمی آئے اور انہوں نے کہا یا نبیؐ جسے آپؐ نے دیکھا کہ اس کا جبڑا چیرا جا رہاتھا،وہ بڑا ہی جھوٹا تھا،جو ایک بات کو لیتا اور پھر ساری دنیا میں پھیلا دیتا تھا۔قیامت تک اسے یہی سزا ملتی رہے گی”۔

اسی طرح بخاری شریف میں: 2654 اور ترمذی شریف میں:1901 پر حدیث مبارکہ ہے کہ” حضورؐ نے فرمایا:کیا میں آپ کو گناہ کبیرہ نہ بتاؤں؟تین بار ارشاد فرمایا۔صحابہؓ نے عرض کیا جی حضورؐ۔آپؐ نے فرمایا:شرک نہ کرنا،والدین کی نافرمانی نہ کرنا،آپؐ تکیہ مبارک سے ٹیک لگائے ہوئے تھے وہ چھوڑ دیا اور فرمایا جھوٹی گواہی مت دینا۔اتنی مرتبہ فرمایا کہ صحابہؓ کہنے لگے کہ کاش حضورؐ خاموشی اختیار فرما لیں "۔یعنی تاکید و اصرار کا یہ عالم تھا کہ حضورؐ نے متعدد بار فرمایا کہ جھوٹی گواہی مت دینا۔گناہ کبیرہ کے متعلق یہی تین باتیں بخاری شریف:2653 سمیت اور بھی کتب احادیث میں کثرت کے ساتھ درج ہیں۔صحیح بخاری میں:6094 پر حدیث ہے۔”حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے۔آقاؐ نے ارشاد فرمایا:بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے یہاں تک کہ وہ خالق کے ہاں صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور جھوٹ برائی کی طرف لے کر جاتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے۔بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے،یہاں تک کہ وہ خالق کے ہاں جھوٹا لکھ دیاجاتا ہے”۔اب ذرا سوچیے کہ بندے کو محض کچھ لوگ ہی جھوٹا سمجھیں تو اس کی عزت خاک میں مل جاتی ہے اورجینا حرام ہو جاتا ہے اور اگر خالق کے ہاں وہ جھوٹا لکھا گیا تو پھر اس کی سنوائی کدھر ہے اور کہاں عزت ہو سکتی ہے؟

ترمذی شریف:1972میں ہے کہ”بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل اس سے دور چلا جاتا ہے”۔ترمذی شریف:1973میں ہے کہ آپؐ کے نذدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی اور عادت نا پسندیدہ نہیں تھی۔جھوٹا اس وقت تک آپ ؐکی نظر مبارک میں قابل نفرت رہتا جب تک کہ وہ جھوٹ چھوڑ نہ دے۔ ابو داؤد شریف:3597 میں ہے کہ جس نے حد کے نفاذ کو روکنے میں سفارش کی اس نے پروردگار کی مخالفت کی۔جو جانتے بوجھتے باطل کی حمایت میں آیا وہ پروردگار کی ناراضی میں رہے گا اور جس نے کسی مومن کے بارے میں ایسی بات کی جو اس میں نہیں تھی تو پروردگار اسے دوزخیوں کی پیپ میں ڈالے گا۔استغفراللہ۔ابوداؤد شریف میں:3598 میں ہے۔”جس نے کسی ظلم کے جھگڑے میں مدد کی پس تحقیق وہ پروردگارکی ناراضی کے ساتھ لوٹا”۔سچ بولنے والے کا انعام یہ ہے کہ ابو داؤد شریف:4800 میں ہے کہ” حضورؐ نے فرمایا کہ میں جنت کے درمیان میں اس کے محل کا ضامن ہوں جس نے جھوٹ چھوڑ دیا اگرچہ وہ مذاق میں ہی کیوں نہ ہو”۔آخر میں انتہائی غور طلب بات ہے کہ سورۃ ص:82,83 میں ہے "کہ ابلیس نے کہا کہ تیری عزت کی قسم میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے”۔ابلیس جو خود لعین اور مردود ہے،دنیا کو بہکاتا ہے،مگر جب پروردگار سے بولتا ہے تو بولنے میں یہ جھوٹا دعوی نہیں کرتا کہ سب کو ہی بہکاؤں گا۔کیونکہ اگر وہ یہ کہتا تو جھوٹ بولتا لیکن اس نے بڑی احتیاط سے کہا کہ بہکاؤں گا مگر تیرے خاص بندوں کے سوا بہکاؤں گا۔اور ایک ہم ہیں کہ بات بات پر بغیر تحقیق کے بات کو پھیلا کر کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا۔یاد رکھیے پروردگار کو سب سے ذیادہ برا عمل جو لگتا ہے وہ زمین میں فساد پھیلانا ہی ہے،اسی لیے تو فرشتوں نے انسانوں کے بارے میں فساد کا ہی محض ذکر کیا تھا۔بہت سے موقعے ایسے آتے ہیں جہاں سچے اور جھوٹے بالمقابل ہوتے ہیں،وہاں بھی یہی حکم ہے کہ سورۃ توبہ:119 میں ارشاد ہے:”اے ایمان والو! پروردگار سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ”۔اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ سچ کا ساتھ دیں گے تو جھوٹ کمزور ہو کر اپنی موت آپ مر جائے گا۔پروردگار ہمیں ہدایت دے۔آمین

اویس خالد

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button