آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریصابر رضوی

دریا نہیں تھا پر مجھے دریا بنا دیا

صابر رضوی کی ایک اردو غزل

دریا نہیں تھا پر مجھے دریا بنا دیا
جب دو طرف کسی نے کنارہ بنا دیا

دیوار کچھ تو اپنے سہارے کھڑی رہی
کچھ میں نے اس پہ ہاتھ سے کاندھا بنا دیا

جس بات پہ تماشا نہیں کر سکا تھا میں
اس بات پر بھی اس نے تماشا بنا دیا

کہسار کے پڑوس کی برکت نہ پوچھیے
چشموں نے میری مٹی کو گارا بنا دیا

محفوظ تھا جو دانہء گندم غلاف میں
کرمِ ہوس نے اس کو بھی دلیا بنا دیا

میں نے کہا کہ لطفِ سخن کو بڑھائیے
یاروں نے شاعری کو لطیفہ بنا دیا

یہ آنکھ تجھ بدن میں حرارت نہ بھر سکی
سورج نے برف زار کو دریا بنا دیا

کس نے بجھے دیوں سے نکالی ہے روشنی
کس نے چراغِ شام کو کاسہ بنا دیا؟

علی صابر رضوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button