چلو گمان کی حد سے گذر کے دیکھتے ہیں
کنویں میں کیا ہے کنویں میں اتر کے دیکھتے ہیں
وہ کہہ رہے ہیں اچھوتا سا کام کر دیکھو
سو چھے کو پانچ سے تفریق کر کے دیکھتے ہیں
اب ایسی فلم بھی شاید ہی کوئی ہو کہ جسے
اکٹھے بیٹھ کے افراد گھر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے خال سے چلتے ہیں گیسوؤں کی طرف
سِمٹ کے دیکھ لیا ہے بکھر کے دیکھتے ہیں
فلک پر جتنے مَلک ہیں وہ اپنے چینل پر
شبانہ روز تماشے بشر کے دیکھتے ہیں
اب اور کیا سرِ بازار دیکھنا انور
کسی دُکان پہ چشمے نظر کے دیکھتے ہیں
انور مسعود