آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاسلامی گوشہ

مکافات عمل

ایک اردو تحریر از محمد یوسف برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ ” بھائی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ” اور غلط کام کا انجام بھی غلط ہے ” اصل میں یہ کہاوتیں سچ پر مبنی ہیں اور اسے ہی شریعت کی زبان میں ” مکافات عمل ” کہتے ہیں اور یہ ہی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا ایک مکافات عمل ہے یعنی ہم اگر اپنی زندگی میں کسی کے ساتھ ناجائز کرتے ہیں تو وہ واپس لوٹ کر ہمارے پاس آتی ہے جس طرح بھلائی کرنے کا حکم اس لیئے دیا گیا کہ یہ واپس لوٹ کر ہمارے پاس آتی ہے بالکل کسی کے ساتھ کی گئی زیادتی مکافات عمل کے طور پر ہمارے ساتھ ہوتی ہے اور یہ ہم انسانوں کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح ” المستدرک الحاکم” کی ایک حدیث کے مطابق کہ
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:لوگوں کی عورتوں کو پاکدامن رکھو،(بدلے میں)تمہاری عورتوں کو پاکدامن رکھا جائے گا، تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہاری اولادیں تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں گی،جس شخص کے پاس اس کا بھائی لاچار ہوکر آئے،اس کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی بات کو مانے خواہ حق پر ہویا ناحق ہو۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض کوثر پر مجھ سے نہیں مل سکےگا۔
( المستدرک الحاکم 7258)
اس حدیث کے متعلق فقہاء نے تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ حدیث بھی مکافات عمل کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی دوسروں کی عورتوں ہر بری نظر ڈالتا ہے تو وہ یہ سوچ لے کہ مکافات عمل کے طور پر یہ عمل اس کے گھر کی عورتوں پر بھی ہوسکتا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے والدین سے اچھا سلوک نہیں کرتا تو مکافات عمل کے طور پر اس کی اولاد بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی لیکن اس حدیث مبارکہ میں جو بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ ایسا عمل کرتے ہیں ان کے لیئے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی طرف سے سخت وعید ہے کہ ایسے لوگوں کی ” حوض کوثر ” پر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے ملاقات نہ ہوسکے گی اب اس سے بڑی بدقسمتی ایک مسلمان کے لئے کیا ہوگی کیونکہ یہ قانون قدرت ہے اسی لیئے ہمیں ہر برا یا غلط کام کرنے سے پہلے مکافات عمل کے عمل کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کیونکہ جب کوئی انسان ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں مکافات عمل کو ذہن نشین رکھے گا تو اسے کسی کے لیئے برا کرنا تو دور برا سوچنا بھی مشکل ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے بیشمار حقیقی واقعات نظر آتے ہیں جہاں ہم لوگوں کو مکافات عمل سے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ جو میرے سامنے ہوا اور میں اس واقعہ کو کبھی بھول نہیں سکتا میں نے اللہ تعالیٰ کے مکافات عمل کے عمل کو اپنے سامنے دیکھا اس واقعہ میں جو نام بھی میں شامل کروں گا وہ فرضی ہوں گے لیکن یہ واقعہ بالکل سچا اور میری آنکھوں دیکھا ہے میرا اپنا کاروبار تھا اور اس کاروبار کو تعلق سبزی منڈی سے تھا میری ساتھ والی جگہ پر ایک اور شخص بھی تھا جو کاروباری حوالے سے میرا ہم پیشہ تھا اور اسے اپنے دولت مند ہونے پر بڑا غرور تھا اس کا نام سیٹھ عابد تھا ہمارے کاروبار میں صبح ہی صبح Oction یعنی سبزیوں کی بولی ہوتی تھی اور مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگ یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اس میں حصہ لیتے اور اپنی خریداری کرکے مال اپنے شہر میں فروخت کے لئے لے جاتے تھے یہاں
ایک شہر سے دوسرے شہر تک مال کو پہنچانے کا کام چھوٹی سوزوکی ، مزدہ یا شہزور وغیرہ سے کام لیا جاتا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کاکا ایک ڈرائیور تھا جو دوسرے شہر سے آتا تھا اور یہ ہی کام کرتا تھا اس کی عمر بھی پچاس کے قریب تھی اور سبزی منڈی کے کم و بیش سبھی بیوپاری اسے بخوبی جانتے تھے کئی دفعہ کوئی باہر کا بیوپاری مال منگواتا تو کاکا کے ساتھ بھجوادیا جاتا اور دوسرے دن کاکا وہاں سے رقم لیکر واپس اجاتا اور جس کی رقم ہو اس کو دے دیتا ایک دفعہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کاکا سیٹھ عابد کا مال پہنچا کر رقم لیکر جب واپس آرہا تھا تو راستے میں اس پر کچھ ڈاکوؤں نے حملہ کردیا کاکا کو پیسے نہ دینے پر زخمی کردیا اور پیسے لیکر فرار ہوگئے کاکا زخمی حالت میں واپس اپنے شہر چلا گیا اور دو تین دن تک وہ منڈی نہ آیا یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ہر کوئی کاکا کی خیریت کی فکر میں تھا جبکہ سیٹھ عابد کو اپنے پیسوں کی فکر تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دو سے تین دن بعد جب وہ واپس منڈی پہنچا تو سیٹھ عابد نے اس سے پیسوں کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ میں تو غریب آدمی ہوں میں اتنے پیسے کہاں سے لائوں تو سیٹھ عابد نے کہا کہ میں کچھ نہیں جانتا مجھے چوبیس گھنٹہ کے اندر میرے پیسے چاہئے ورنہ تم دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں یہ کہکر وہ غصہ میں چلا گیا اور کاکا روتا ہوا منہ بناکر اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا اگلی صبح کاکا نے عرض کیا کہ میں روزانہ آپ کا مال لیکر جاتا ہوں اور آپ مجھے اس کی مزدوری یعنی آنے جانے کا خرچہ دیتے ہیں جب تک آپ کی رقم نہیں اترتی میں آپ کا مال لےجایا کروں گا اور آپ میری مزدوری نہ دیجئے گا اپنے پاس جمع کرتے جایئے تو کاکا کی بات سن کر سیٹھ عابد کو غصہ آگیا اور اس نے اس ادھیڑ عمر شخص کاکا کو اپنے لوگوں کے ہاتھوں باتھ روم میں بند کروادیا اور کہا کہ جب تک میں نہ کہوں باتھ روم کا دروازہ نہ کھولا جائے یہ کم و بیش صبح کے 10 بجے جا وقت تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ کاکا چلاتا رہا چیختا رہا کہ میں بیمار ہوں میرا دم گھٹ رہا ہے لیکن کسی کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ سیٹھ عابد کے حکم کی خلاف ورزی کرسکے جب گھڑی میں 12 کا وقت ہوا تو منڈی کے ایک معزز اور محترم شخصیت کا وہاں سے گزر ہوا اور اسے جب اس بات کا پتہ چلا تو اسے بڑا افسوس ہوا اور اس نے خود دروازہ کھول کر اس کاکا کو باہر نکالا جس کی حالت بہت خراب تھی اس کو پانی پلایا گیا تھوڑی دیر ہوا میں بٹھایا اور پھر طبیعت کے سنبھلتے ہی اسے وہاں سے جانے کے لیئے کہا لیکن اس نے جاتے جاتے سیٹھ عابد کے لوگوں کو اتناکہا کہ اپنے سیٹھ کو کہدینا کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ کو کچھ ہی روز گزرے ہوں گے کہ ایک دن صبح ہی صبح بولی کے کام سے فارغ ہوکر جب سیٹھ عابد اپنی آفس پہنچا تو سیدھا باتھ روم میں گیا کیونکہ وہ شوگر کا مریض تھا اس لیئے بار بار پیشاب کا خیال ہوتا تھا آفس میں کئی لوگ موجود تھے جب سیٹھ عابد کو باتھ روم میں گئے ہوئے کچھ زیادہ دیر ہوگئی تو لوگوں میں باتیں شروع ہوگئیں کہ اتنی دیر کسے لگ گئی لوگوں نے باہر سے آواز لگائی لیکن جب کوئی جواب نہ آیا تو دروازہ توڑنا پڑا لوگوں نے دیکھا کہ اپنے کپڑوں میں مکھی کو نہ بیٹھنے دینے والا سیٹھ عابد غلاظت سے بھرا ہوا اسی باتھ روم میں موت کی نیند سویا ہوا تھا جہاں اس نے ایک بوڑھے اور غریب شخص کو بند کردیا تھا اور اللہ تعالی کی طرف سے یہ مکافات عمل کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج اس واقعہ کو کم و بیش بارہ پندرہ سال ہوگئے ہیں لیکن میں جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے اس مکافات عمل سے بڑا خوف آتا ہے اور یہ بات واقعی سچ اور حقیقت پر مبنی ہے کہ ہم جیسا کسی کے ساتھ ناجائز کریں گے مکافات عمل کے طور پر وہ ہمیں واپس لوٹایا جاتا ہے ہم لوگ جانے انجانے میں شیطان مردود کے بہکاوے میں اور اس کی چال میں آجاتے ہیں اور وہ ہم سے ایسے کام کروا لیتا ہے لیکن ایسے لوگوں کی ہمارے معاشرے میں دو قسمیں ہیں ایک تو وہ لوگ کہ جو مکافات عمل کی گھیرائو میں آتے ہیں تو انہیں باری تعالی سنبھلنے کا موقع نہیں دیتا جبکہ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو مکافات عمل سے گزرتے ہیں تو انہیں یہ احساس ہوتا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے گناہ سرزرد ہوا ہے وہ اپنے دل میں شرمندہ ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے مکافات عمل سے انہیں بھی گزرنا پڑتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے یا پہلے کا دور کچھ اور تھا اور اب کا دور کچھ اور ان باتوں میں کافی حد تک صداقت نظر آتی ہے لیکن قدرت کے قوانین میں تبدیلی نظر نہیں آتی سردی ، گرمی ، خزاں ،بہار اور بارش کے موسموں کو وہ رب تعالی تخلیق کائنات سے لیکر اب تک اپنے منشاء اور مصلحت کے تحت ہمارے لئے اتارتا ہے اس میں کوئی ردوبدل نہیں سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے تو مغرب میں غروب ہوتا ہے اس میں کوئی ردوبدل نہیں اسی طرح اس رب تعالی کے بنائے ہوئے قوانین میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی بالکل اسی طرح جیسے مکافات عمل کا عمل ہمیشہ جب بھی کوئی کسی کے ساتھ غلط کرتا ہے زیادتی کرتا ہے اسے کسی نہ کسی شکل میں مکافات عمل سے گزرنا ہی پڑتا ہے اس کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اسی لئے کہا گیا کہ ایسا کوئی بھی عمل یا کام ہو اسے کرنے سے پہلے غور وفکر کرنا چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک واقعہ سن کر مجھے افسوس بھی ہوا اور خوشی بھی افسوس اس بات پر ہوا کہ ہمارے معاشرے میں جن لوگوں کو دنیاوی اعتبار سے ” انسانوں کا مسیحا” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور باری تعالی نے جنہیں انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے ” ڈاکٹر ” جیسے اہم ، معتبر اور معزز پیشے کے منصب پر فائز کیا ہے لیکن اگر یہ ہی لوگ انسانیت کی خدمت کے پیٹھ پیچھے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے پائے جائیں اور پریشان حال مریض کے مرض کو صحیح تشخیص کے ذریعہ حل کرنے کی بجائے انہیں موت کی طرف دھکیلنے میں لگ جائیں انسانوں کے یہ ہی مسیحا خود انسان کی بجائے بھوکے اور نہتے بھیڑیے کی شکل اختیار کرکے مریض کو نوچ نوچ کر کھانا شروع کردیں تو پھر عام انسانوں کا یہ ایک وسیع طبقہ کس پر بھروسہ کرے کس کو اپنا حامی و مسیحا مانے گا بلکہ اسے تو اپنے سائے میں بھی دھوکے اور فریب کی بو آئے گی لیکن اس واقعہ کو سن کر خوشی اس بات کی ہوئی کہ اللہ کی پکڑ میں جس طرح جب وہ لوگ آئے اللہ تعالیٰ نے ان پر مکافات عمل کا سلسلہ جس طرح شروع کیا وہ رہتی دنیا تک ایک مثال بن گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مکافات عمل سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا اب چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے اپنے آپ کو کتنا ہی چالاک اور ہوشیار ہی کیوں نہ سمجھتا ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ واقعہ بھی ایک سچا واقعہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس واقعہ سے کئی لوگ واقف بھی ہوں کیونکہ یہ واقعہ ہمارے اپنے ملک کے اپنے علاقے ڈیرہ غازی خان میں رونما ہوا واقعہ کچھ یوں ہے ایک ماں باپ کی اکلوتی بیٹی جو انتہائی محنتی اور پڑھ لکھ کر اپنے ماں باپ کے لیئے کچھ کرنا چاہتی تھی اچانک جگر کے عارضے میں مبتلا ہوگئی ماں باپ پریشان ہوگئے اور اس کو ایک ہسپتال میں لے گئے وہاں اس کا مکمل چیک اپ ہوا اور مختلف ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کا آپریشن ہوگا ماں باپ پریشان ہوگئی اور بینک سے قرضہ لیکر پیسوں کا بندو بست کیا اور ہسپتال میں جمع کروادیا اور یوں اس بچی کا آپریشن ہوگیا اور وہ کچھ دنوں میں ٹھیک ہوکر گھر واپس آگئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ اس لڑکی کی طبیعت خراب ہوئی اور اسے الٹیاں شروع ہوگئیں اس کے ماں باپ نے اس کا ایک لیڈی ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا تو پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہے اور ماں بننے والی ہے یہ خبر اس لڑکی اور اس کے ماں باپ پر بجلی بن کر گری اس لڑکی کے ماں باپ کو اپنی بچی پر مکمل بھروسہ تھا اس کی نیک نیتی پر انہیں کوئی شک نہیں تھا لیکن یہ سب کیسے ہوگیا جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تو انہیں شک ہوا کہ یہ ان تین ڈاکٹروں کی ہرکت ہوسکتی ہے جنہوں نے اس کا آپریشن کیا تھا لہذہ انہوں نے ان تینوں ڈاکٹروں کے خلاف کیس داخل کروادیا جب ان ڈاکٹروں کو عدالت میں پیش کیا گیا تو ان کو بہت غصہ تھا وہ کہنے لگے کہ ہم پچھلے دس سالوں سے اس ہسپتال میں کام کررہے ہیں لیکن آج تک ہم ہر اتنا گھٹیا الزام کبھی کسی نے نہیں لگایا ہسپتال کے عملے نے بھی ان کے حق میں گواہی دی جبکہ آپریشن کی ویڈیو بھی عدالت میں دکھائی گئی لہذہ کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملنے پر تینوں ڈاکٹروں کو باعزت بری کردیا گیا اس لڑکی کی بڑی بدنامی ہوئی اور اس کے و الدین کو بےبنیاد الزام لگانے کے جرم میں پچاس ہزار کے ہرجانے کا حکم بھی سنایا گیا وہ لڑکی یہ صدمہ برداشت نہ کرسکی اور اپنے ہاتھوں کی نس کاٹ کر خود کشی کرلی ماں باپ بھی محلہ چھوڑ کر وہاں سے کہیں اور چلے گئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ تو تھا اس واقعہ کا ایک رخ اب پڑھئے اس واقعہ کا دوسرا رخ جہاں آپ کو اللہ تعالیٰ کے مکافات عمل کا سلسلہ شروع ہوتے ہوئے نظر آئے گا ان تین ڈاکٹروں میں سے پہلا ڈاکٹر جس کی بیوی گھر کا سارا سامان ، زیور اور نقدی لیکر کسی کے ساتھ بھاگ گئی جس کی وجہ سے اس ڈاکٹر کو فالج کا اٹیک ہوگیا اور زندگی اور موت کی کشمکش میں ایک معزوری والی زندگی گزارنے پر مجبور ہے دوسرے ڈاکٹر کا اتنا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا کہ اس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئی اور وہ لوگوں سے ہٹ کر اکیلا بےبسی کی زندگی گزارنے میں مجبور ہے جبکہ تیسرے ڈاکٹر کی بیٹی کو اس کی یونیورسٹی کے چند دوست اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ایک ہوٹل میں اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرکے بیہوشی کی حالت میں گھر کے باہر چھوڑ گئے جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب اپنے ذہنی توازن کو برقرار نہ رکھ سکے اور بستر مرگ پر لگ گئے اتنا سب کچھ ہونے کے بعد دو ڈاکٹروں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور بیان دیا کہ ہم نے اپنے پیشے سے غداری کرتے ہوئے کئی خواتین کے ساتھ زیادتی کی ہے ہم اپنے آپ کو بہت بڑے تیس مار خان سمجھتے رہے لیکن اب احساس ہوا کہ یہ رب تعالی کی ڈھیل تھی اور جب اس نے اپنے مکافات عمل کی رسی کو کھینچنا شروع کیا تو وہ سارے کام واپس گھوم پھر کر ہم پر مسلط ہوئے واقعی اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے اس کی پکڑ بڑی سخت ہے اور مکافات عمل ہر حال میں ہوکر رہتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مکافات عمل دراصل ان اعمال کا بدلہ ہے جو ہم نے دنیا میں کئے اور یہ صرف کسی کے ساتھ ناانصافی یا زیادتی کرنے کا ہی بدلہ نہیں ہے بلکہ اگر آپ نے کسی کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا کام کیا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے تو اس نیکی کے صلہ کے طور پر بھی مکافات عمل کا قانون قدرت آپ کی طرف لوٹ کر ضرور آئے گا یعنی برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کا بدلہ نیکی کے اجر سے ملنا ہی اللہ تعالیٰ کا مکافات عمل کہلاتا ہے رب العزت کے اس قانون سے انکار کرنا یا اس کی اہمیت کو شرعی اعتبار سے سمجھنے سے منکر ہونا آج کے معاشرے میں بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی بات کو زندگی کا حصہ سمجھ کر ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینا ہے لیکن یہ ایک اہل ایمان مسلمان کی بدقسمتی ، دین سے دوری اور کم عقلی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مکافات عمل کا مطلب تو آپ اچھی طرح سے سمجھ گئے ہوں گے لیکن اس کا ایک مطلب اور بھی ہمیں ملتا ہے وہ یہ کہ اگر آپ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمت کا شکر نہیں کرتے اور اس نعمت کی حقیر سمجھ کر اسے ٹھکرا دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مکافات عمل کے طور پر اس کا آپ سے سامنا کس طرح اور کن حالات میں کرواتا ہے یہ بھی سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے جیسے ایک نوجوان جو کافی دولتمند تھا اور ایک فیکٹری کا مالک تھا بڑے اور وسیع علاقے میں اس نے اپنی فیکٹری بنائی ہوئی تھی جبکہ اسی فیکٹری کے اوپر والے حصے میں اس نے اپنے رہائش کے شاندار گھر بھی بنایا ہوا تھا ایک دفعہ وہ اپنی آفس میں بیٹھا تھا کہ اس کا ایک دوست اس سے ملنے کے لیئے آیا تھوڑی دیر یہاں وہاں کی باتیں ہوئی پھر اس نے گھر پر فون کیا کہ میرا ایک دوست آیا ہوا ہے لہذہ کھانا بھیجو گھر والوں نے جب کھانا بھیجا تو اس نے دوست سے کہا کہ چلو بسمہ اللہ کرو پھر جیسے ہی اس نے کھانے کے تھال ہر سے کپڑا ہٹایا تو اس میں مسور کی دال تھی اسے اپنے دوست کے سامنے بہت شرمندگی ہوئی اور اس غصے میں وہ تھال دال سمیت اٹھا کر پھینک دی اور گھر والوں سے غصہ کرکے وہاں سے جانے کے لیئے اٹھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ابھی وہ نوجوان اٹھا ہی تھا کہ سامنے سے پولیس کی گاڑی کو آتا ہوا دیکھ کر رک گیا پولیس آئی اور بغیر کچھ کہے اسے پکڑ کر لے گئی وہ چلاتا رہا چیختا رہا کہ میرا قصور کیا ہے کیا جرم ہے میرا لیکن پولیس نے کچھ بھی نہیں سنا اور لیجا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا دو دن تک نہ اس کو کچھ کھانے کو دیا اور نہ پینے کو دو دن بعد جب اس کو کھانا پیش کیا گیا تو اس کے تھال میں ایک روٹی اور مسور کی دال تھی اس نے دیکھتے ہی روٹی کو وہیں رکھا اور دال پوری کی پوری چاٹ گیا یہ وہ ہی دال تھی جس سے بھرا ہوا تھال اس نے پھینک دیا تھا ابھی وہ کھانے میں مصروف تھا کہ پولیس والا ایا اس نے دروازہ کھولا اور اسے باہر لاکر ہاتھ منہ دھلواکر اچھے کپڑے پہنا کر اس سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ دراصل ہمیں جس کو پکڑنے کی ہدایت کی گئی تھی وہ آپ نہیں بلکہ کوئی اور تھا آپ جا سکتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جو بھی نعمتیں عطا کرتا ہے اس نعمت کے عوض اس کا ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے اب جیل تک پہنچنے دو دن بھوکے پیاسے رہنے اور پھر واپس نکل جانے کے اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کو اسے صرف وہ نعمت جو دال کی شکل میں اس کو فراہم کی گئی تھی اور جس کو اس نے ٹھکرایا تھا وہ دوبارا مکافات عمل کے طور پر سامنے لاکر اس کی اہمیت کا اندازا کروانا تھا کیونکہ جب بھوک کی شدت بہت زیادہ بڑھ گئی تو وہ مسور کی دال بھی اس کے لیئے کسی لذیذ کھانے سے کم نہیں تھی لہذہ مکافات عمل کا ایک طریقئہ قدرت یہ بھی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مجھے لگتا ہے کہ ” مکافات عمل” کا یہ موضوع ایک طویل موضوع ہے ہم اس کے ہر پہلو تک تو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ اس موضوع پر کئی مضامین اور کئی کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں لیکن میں نے اپنی سی ایک کوشش کی ہے مختصر اور جامع انداز میں جو کچھ لکھ سکا وہ لکھ کر بس آخر میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ کسی نے بہت خوبصورت بات کہی ہے کہ ” مکافات عمل کی چکی چلتی بہت آہستہ ہے مگر پیستی بہت باریک ہے ” اللہ نے چاہا تو پھر کسی وقت اس موضوع پر کچھ لکھ کر اپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کروں گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

محمد یوسف برکاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button