اردو تحاریراردو کالمزشہزاد نیّرؔ

سمپورن سنگھ کالرا

شہزاد نیّرؔ کی پرکشش تحریر

دُنیا سے عدم اطمینان کا اظہار ہر بڑے فن کی بنیاد بنتا ہے۔ ہر نئی ایجاد، نئی کہانی یا نئی نظم، گویا دُنیا کو بہتر بنانے کی کوشش ہے یا پھر کسی خلا کو پُر کرنے کی کاوش۔

شاعر اور ادیب نغموں، نظموں اور کہانیوں میں دُنیا کی ایک اپنی تصویر بناتے ہیں۔ اِن کی تحریر میں ایک نئی دُنیا بستی ہے جو پڑھنے والوں کی آنکھوں میں بھی بَس جاتی ہے۔ یہ دُنیا در دُنیا بساتے ہیں۔

پھر ایک مُدت بیت جاتی ہے تو ان کو خیال آتا ہے کہ دُنیا میں تو کچھ بھی بدلاؤ نہیں آیا۔ وہ تو ویسی ہی ہے جیسی کہ ہوا کرتی تھی! یہ سچے لوگ ہیں سو خود ہی مان لیتے ہیں لیکن پھر بھی لکھتے رہتے ہیں۔ شاید کبھی کہیں کچھ بدل جائے اور تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں میں ان کا شمار ہو جائے۔ شاید کہیں کچھ بدلتا بھی ہو۔ باہر نہیں تو اندر۔ ذہنوں میں، دلوں میں! کچھ تو ضرور بدلتا ہو گا۔

یہ وہی لوگ ہیں جو خوش نصیب ہیں، شاعر ادیب ہیں۔ اپنے خوش طینت، نیک نصیب گلزار بھی انہی لوگوں میں سے ہیں۔ گلزار کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، سو انہوں نے خوب کہا۔ فلم میں کہا، نظم و غزل میں کہا، کہانی میں کہا، جوانی میں کہا اور اب پیرانہ سالی میں بھی کہہ رہے ہیں۔

گلزار کا کہا ہوا کروڑوں دلوں تک پہنچا۔ سرحدوں کے پار گیا اور اس آواز کی طاقت کے آگے لکیروں کا جال ہار گیا۔ برقی مواصلات نے فضا میں ایسا جال بُن رکھا ہے جو زمینی لکیروں کی شناخت نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی فن کی کوئی لکیر تو ہوتی نہیں۔ گلزار کو فن آتا تھا سو دُنیا لکیریں پھاندتی آتی چلی گئی اور گلزار کے رنگ و بو میں بستی چلی گئی۔

:کسی نے پوچھا
یہ بمبئی کی فلمی صنعت میں گلزار ہیں کیا یہ ہندو ہیں؟ یا ہم میں سے ہیں
ہم نے کہا گلزار کو بس گلزار ہی سمجھیں تو اچھا ہے پھولوں کا ایمان تو آنکھوں کو جچنا ہے
وحید احمد (پیش لفظ، شفافیاں )

گلزار نے پر دۂ سیمیں پر گُل بوٹے کاڑھے تو دُنیا سَج سی گئی۔ فلمی مکالموں سے روزمرہ ترتیب پایا اور پھر ان کی کومل، سبک نظمیں۔
گلزار نے نئی نظم کو وہ سوچتا ہوا رنگ دیا ہے جو زمین سے اٹھتا ہے۔ خاکستری رنگ۔ اسی خاک رنگ سے سات رنگ دھنک سجتی ہے۔ زمین کے لوگوں کی باتیں، فلیٹوں میں رہنے والے لوگ، جب سیلاب آ جائے، بتی چلی جائے، خط کا انتظار ہو، چادر کھینچ کر سوئی پڑی حسینہ، خون میں لت پت اخبار، دو وقت روٹی کی چکی میں پستے ہوئے لوگ۔ یہ سب کچھ گلزار کی نظم میں ہے۔

ان کی زبان نکھری نتھری ستھری، گنگا جمنی اُردو زبان جو ایک طرف عربی اور فارسی تو دوسری جانب ہندی اور سنسکرت سے سیراب ہوتی ہے۔ گلزار کی نظمGulzar جب سبک ملائم رو میں بہتی ہے تو معنی کے کنول سطحِ آب کو سجاتے رہتے ہیں۔ گلزار کی نظم جدید نظم نگاری سے نہ صرف ہم آہنگ ہے بلکہ آگے بڑھ کر سوچتی بھی ہے۔ یہ نظم نرمی سے سوال اٹھاتی ہے۔ غزل کی روایتی تلازمہ کاری اور طرزِ اَدا سے بچ بچا کر اپنی راہ چلتی ہوئی نظم جس پر گلزار کے اپنے دستخط ثبت ہیں۔ نظم جو بیک وقت سہل بھی ہے اور گہری بھی۔

سارا دِن میں خُون میں لَت پَت رہتا ہوں
سارے دن میں سُوکھ سُوکھ کے کالا پڑ جاتا ہے
خون کی پپڑی سی جم جاتی ہے
کھرچ کھرچ کے ناخنوں سے چمڑی چھلنے لگتی ہے
ناک میں خُون کی کچی بُو
اور کپڑوں پر کچھ کالے کالے چُکتے سے رہ جاتے ہیں
روز صبح اخبار مرے گھر خون میں لت پت آتا ہے
(آشوب)
گلزار نے غزل کہی تو پُرتاثیر کہی، تازہ کہی اور خوش آہنگ کہی۔ گاتی ہوئی رقص کرتی ہوئی غزل۔

تنکا تنکا کانٹے توڑے ساری رات کٹائی کی
کیوں اتنی لمبی ہوتی ہے چاندنی رات جدائی کی
آنکھوں اور کانوں میں کچھ سناٹے سے بھر جاتے ہیں
کیا تم نے اُڑتی دیکھی ہے ریت کبھی تنہائی کی

گرم لاشیں گری فصیلوں سے
آسماں بھر گیا ہے چیلوں سے

ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا
میری تصویر جو گرتی تو چھناکا ہوتا
کیوں مری شکل پہن لیتا ہے چھپنے کے لئے
ایک چہرہ کوئی اپنا تو خدا کا ہوتا

افسانے کی کہانی گلزار خود بیان کرتے ہیں۔

”ہم نثر بھی پڑھتے تھے۔ کبھی کبھی کوئی کہانی ڈَس جاتی تو دنوں ہائے ہائے کرتے۔ شعر پہ شعر تو چڑھ جاتے لیکن کہانی مہینوں نہ اُترتی۔ تب جی چاہتا ہم بھی ایک بار کہانی لکھیں گے“

(گلزار، پیش لفظ، دستخط)
اب صورت یہ ہے کہ گلزار کی کہانی پڑھ کر ہم لوگ مہینوں ہائے ہائے کرتے ہیں پھر بھی پھانس دل سے نکلتی نہیں۔ برسوں بیتے ”فنون“ میں ”گاگی اور سپرمین“ پڑھی تھی۔ آخری فقرہ آج بھی خنجر کی طرح دل میں پیوست ہے :۔

”خدا بھی سپرمین کی طرح ہے۔ کتابوں میں بہت کچھ کر لیتا ہے“ اس کہانی کے آخر میں سرطان میں مبتلا ننھی گاگی مر جاتی ہے!

پاک بھارت سرحدی جھڑپوں پر لکھا گیا ان کا افسانہ ”اوور“ پڑھا تو یہ فقرہ کانوں میں ہمیشہ کے لیے رُک گیا ”بم سے تو بیڑی بھی نہیں سلگا سکتے“

اور وہ شاہکار افسانہ جو پورے کا پورا یوں وجود میں گھل گیا ہے جیسے پانی میں نیل، کہ کپڑا بھگو کر نکالو تو نیلا، زہر بھرا۔ اس افسانے کا عنوان ہے ”مائیکل اینجلو“ یہ کہانی کبھی بھی خود کو کہنا بند نہ کرے گی۔

”میں وہی یسوع ہوں جیسے تم یہودہ نقش کر رہے ہو“

کہانیاں ہیں اور کہانی کار ہے۔ نظمیں ہیں اور نظم نگار ہے۔ غزلیں ہیں اور غزل کا دلدار ہے۔ فلمی گیت ہیں اور رَس بھرا فنکار ہے۔ یہ سارے پُھول ایک ساتھ کِھل جائیں تو ”گلزار“ ہے۔ ہم سب کا گلزار۔ سب کا سانجھا گلزار۔ برصغیر کے باغ سے اُٹھی یہ خوشبو دُنیا کے کونے کونے تک پہنچی ہے۔

دینہ (جہلم) میں پیدا ہو کر ممبئی میں زندگی گزارنے والا سمپورن سنگھ کالرا کہیں بھی رہے، دراصل وہ دلوں میں رہتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گلزار تو ”وہاں“ کے ہیں۔ میں دِل پہ ہاتھ رکھ کے کہتا ہوں گلزار یہاں کے ہیں۔

شہزاد نیّرؔ

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button