دوپہر کے 2بجے ڈاکٹر سٹیفن مارٹن اپنے دفتر میں داخل ہوئی، تو ایک مریض کو منتظر پایا۔ وہ اس سے محوِگفتگو ہوگئی۔ ڈاکٹر سٹیفن امریکی شہر، کلوریڈو سپرنگز کے میموریل ہسپتال میں کام کرتی تھی۔ ٹھوس بدن، لمبے بازوؤں و ٹانگوں والی 42سالہ سٹیفن دیکھنے میں بالرینا (ناچ) پیش کرنے والی رقاصہ لگتی، مگر وہ میموریل ہسپتال میں حمل کے خطرناک ترین کیس حل کرنے کی ماہرِخصوصی تھی۔ تاہم اُسے رقص پسند تھا اور وہ جب بھی ناچتی، تو اسی توانائی اور باریکی سے جو اس کے علاج کا خاصا تھا۔
مارٹن کو یقین تھا کہ آج کا دن بھی روزمرّہ مصروفیت میں گزرے گا۔ اچانک انٹرکام سے ایک فوری پیغام نشر ہونے لگا: ”کوڈ بلیو، ایسٹ ٹاور، لیبر اینڈ ڈیلوری رومز۔“ ہسپتال کی اصطلاح میں کوڈ بلیو کے معنی ہیں کہ نہایت ایمرجنسی کا کیس آن پہنچا۔ مطلب یہ کہ مریض کو دل کا دورہ پڑا ہے اور اُسے فوری علاج کی ضرورت ہے۔ لیکن
پیغام میں شامل لیبر اینڈ ڈیلوری رومز کے معنی تھے ہ ماں اور بچہ، دونوں کی زندگی انتہائی خطرے میں ہے۔
پیغام سنتے ہی وہ لیبر اینڈ ڈیلوری رومز کی طرف بھاگ پڑی۔ اس نے متوحش ہوتے ہوئے سوچا ”آج کرسمس کی شام ہے۔ آج میں کسی کو موت کے منہ میں جاتا نہیں دیکھ سکتی۔ اے خدا، میری مدد فرما۔“
اس دن صبح 9بجے 34سالہ ٹریسی ہرمین لیبر روم میں داخل ہوئی تھی۔ اس کا شوہر، مائیک بینک میں ملازم تھا۔ دونوں 2پیارے سے بچوں کے والدین تھے کہ اب تیسرے بچے کی آمد آمد تھی۔ ٹریسی صحت مند اور خوش باش تھی۔ ابتدائی ٹیسٹوں سے پتا چلا تھا کہ وہ بیٹے کی ماں بننے لگی ہے۔ چونکہ یہ ان کا پہلا لڑکا تھا، لہٰذا وہ خوشی سے نہال ہوگئے۔ جلد ہی انھوں نے نام بھی سوچ لیا۔
10بجے ٹریسی کو دردِزہ شروع ہوا۔ رفتہ رفتہ ڈیڑھ بج گیا لیکن بچے کی آمد کے آثار نہ تھے۔ نرس نے اُسے ٹیکا لگایا تھا کہ درد اور اینٹھن کم ہو سکے۔ وہ بڑی توجہ سے اپنی مریضہ کی تیمارداری کر رہی تھی۔ مانیٹر بتا رہا تھا کہ بچے کے قلب کی دھڑکن سست ہے۔ تاہم یہ خطرے کی بات نہیں تھی۔ مائیک نے پیار سے بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہولے سے بولا ”آنکھیں بند کرکے آرام کرو۔ لگتا ہے کہ اس کے آنے میں پورا دن لگ جائے گا۔“
لیبرروم کی طرف بھاگتے ہوئے ڈاکٹر سٹیفن کا سانس پھول گیا اور وہ اپنے اندر بڑا جوش و جذبہ محسوس کرنے لگی۔ دراصل جب بھی کوڈ بلیو کے الفاظ سنتی، تو ماضی کا ایک الم ناک واقعہ ڈراؤنا خواب بن کر اُسے یاد آجاتا۔
یہ4جولائی 1997ء کی بات ہے جب وہ طبی تعلیم کے تمام مراحل سے گزر کرایک اسپتال میں ملازمت کرنے لگی۔ اس نے ایمرجنسی ڈاکٹر کا عہدہ سنبھالا۔ دوپہر کو ایک 21سالہ حاملہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ ہوا یہ کہ دردِزہ کے دوران آنول پھٹ گئی۔ تب اس کا امائنومادہ عورت کے خون میں جا شامل ہوا جس سے زبردست الرجی نے جنم لیا۔ اس الرجی کے باعث اندرونی اعضا سے خون جاری ہوگیا۔
چند منٹ کے اندر اندر حاملہ کے قلب و جگر نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اُدھر بچے کے دل کی دھڑکن سست ہوگئی۔ ڈاکٹر سٹیفن نے فوراً آپریشن کیا لیکن ماں اور بچے، دونوں کی جان نہ بچا سکی۔
پہلے ہی دن دو اموات ہونا ایک نوخیز ڈاکٹر کے لیے بہت بڑا جذباتی صدمہ ثابت ہوا۔ اس کی ذہنی حالت خراب ہوگئی اور وہ بستر سے جا لگی۔ وہ ہر وقت سوچتی رہتی کہ وارڈ میں میرے ہونے کا کیا فائدہ ہوا؟ دوست احباب نے اُسے ڈپریشن سے نکالنا چاہا لیکن ان کو ناکامی ہوئی حتیٰ کہ ڈاکٹر کا شوہر، ماہر اعصاب جیف بھی اپنی بیگم کو صدمے کی اتھاہ گہرائیوں سے نہ نکال سکا۔
سٹیفن مغربی ٹیکساس کے ایک دیہہ میں پیدا ہوئی۔ بچپن سے وہ معالج بننے کی تمنا کرنے لگی۔ وہ سہیلیوں سے کھیلتی، تو کھیل کھیل میں ان کا علاج کر ڈالتی۔ اب جب اس نے منزل پا لی تھی، تو ایک خوفناک حادثے نے قدرتاً سٹیفن کے ہوش و حواس گُم کر دیے۔
اُسے ذہنی و جسمانی طور پر صحت یاب ہونے میں کئی ہفتے لگ گئے۔ کامیابی میں بڑا دخل ڈاکٹر سٹیفن کی ہمت اور اس خواہش کا تھا کہ وہ ان تمام وجوہ کو جان سکے جو ماں اور بچے کی وفات کا سبب بنتے ہیں۔ وہ بتاتی ہے ”میں نے تہیہ کرلیا کہ بیماریاں مجھے شکست نہیں دے سکتیں۔ مجھے ہر حال میں ان کا حل تلاش کرنا تھا۔
اب شعبہ زچہ وبچہ میں ہرکوڈ بلیو اس کے لیے چیلنج بن گیا…… ساتھ ہی یہ دعوت بھی کہ مزید تحقیق کی جائے۔ 4جولائی کے حادثے کے بعد ڈاکٹر سٹیفن کو جو بیش بہا تجربات حاصل ہوئے، انھوں نے اُسے خصوصاً حاملہ خواتین میں حملہ قلب کا ماہرِخصوصی بنا دیا۔
ڈاکٹر سٹیفن ایک منٹ کے اندر اندر ٹریسی کے پاس پہنچ گئی۔ وہ نیم بے ہوش تھی اور زندگی کے آثار معدوم ہو رہے تھے۔ ڈاکٹر نے اس میں خون کا دباؤ نہیں پایا اور نہ ہی وہ معمول کے مطابق سانس لے رہی تھی۔ تبھی ایک نرس ٹریسی کا سینہ دبانے لگی تاکہ سانس بحال کرسکے۔
ٹریسی کی حالت خراب کرنے میں کئی وجوہ کا ہاتھ ہو سکتا تھا۔ مثال کے طور پر آنول سے مایونی مادے کا نکلنا، دل کی دھڑکن کا بے ترتیب ہونا اور آنول کا رحم سے علیحدہ ہوجانا جس کے باعث وہ خون سے بھر جاتا ہے۔ ان تمام کیفیات میں طبی پروٹوکول یہ ہے کہ ماں کا علاج کرنے سے قبل بچے کو پیٹ سے نکال لیا جائے۔ ڈاکٹر سٹیفن بھی جانتی تھی کہ ماں کو بچانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جنین (بچے) اور آنول کو نکالا جائے۔ یوں ٹریسی کے دل پر پڑا دباؤ کم ہوتا اور بچنے کا امکان بڑھ جاتا۔
ڈاکٹر سٹیفن نے پھر2ٹیمیں بنا دیں۔ وہ خود آپریشن کرنے والی ٹیم کی سربراہ بنی۔ اس نے ٹریسی کی سرجری کرنے کے بعد اُسے بچانے کی سعی کرنا تھی۔ دوسری ٹیم نے بچے کو سنبھالنا تھا۔ جب ماں کا سانس بند ہوجائے، تو صرف پانچ منٹ بعد بچے کے دماغ کو نقصان پہنچنے لگتا ہے۔ مانیٹر پہلے ہی بتانے لگا تھا کہ بچے کے قلب کی دھڑکن سست ہو رہی ہے۔
ایک جونیئر ڈاکٹر نے ایک نالی ٹریسی کے منہ میں ڈالی اور دستی پمپ اس کے پھیپھڑوں تک آکسیجن پہنچانے لگے۔ مدعا یہ تھا کہ اس کا تھما دل دوبارہ چل پڑے۔
اسی وقت 12سال پراناحادثہ ڈاکٹرسٹیفن کے سر پر کابوس بن کر سوار ہوگیا۔ تب ایک نوجوان لڑکی اس کی آنکھوں کے سامنے جان ہار گئی تھی۔ لیکن پھر اس نے اپنے خیالات جھٹکے اور تندہی سے کام پر جُت گئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ لیبرروم ہی میں آپریشن کیا جائے۔ چناں چہ متعلقہ اوزار وہیں پہنچ گئے۔
اس نے ٹریسی کے شکم میں 15سینٹی میٹر لمبا افقی شگاف ڈالا مگر کوئی خون نہ نکلا۔ دراصل ٹریسی کے دل نے خون پمپ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹر سٹیفن نے پھر دوسرا چیرا لگایا اور رحم کھل گیا۔ اس نے پھر تیزی سے بچہ نکالا اور آنول کاٹ دی۔
بچے کو ہاتھ میں لیتے ہی ڈاکٹر سٹیفن کو محسوس ہوگیا کہ اس کے تمام نظام بڑی کمزور حالت میں ہیں۔ بچے کا رنگ سفید پڑا ہوا تھا اور وہ غیرمتحرک تھا۔ اس نے بچہ قریب کھڑے ڈاکٹر کو تھما دیا۔ اب ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بچے کو بچانے کی کوششیں کرنے لگی۔ اس کا جسم خشک کرکے رگڑا گیا اور مصنوعی تنفس دیا۔ بچے کی خوش قسمتی کہ آپریشن پانچ منٹ سے قبل انجام پایا تھا۔
اب ڈاکٹرسٹیفن ماں کی طرف متوجہ ہوئی جس کا چہرہ نیلا پڑ چکا تھا۔ اس نے شگاف والی جگہ سے اندر جھانکا، تو اُسے شریانِ کبیر (Aorta) نظر آئی۔ یہ انسانی شریانی نظام کی سب سے بڑی شریان (Artery) ہے جو دل کے بائیں خانے سے نکلتی ہے۔
ڈاکٹر نے ہولے سے شریان پر ہاتھ رکھا۔ تبھی اُسے اپنی انگلی کے نیچے دھڑکن محسوس ہوئی، جیسے کسی نے آنکھ جھپکی ہو! وہ باآوازبلند بولی ”اِسے آپریشن روم لے چلو، اسی وقت!“
مائیک ہال میں بیٹھا بے تابی سے ڈاکٹر سٹیفن کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے ایک اسٹریچر کے ساتھ اُسے آتے دیکھا، تو اُٹھ کھڑا ہوا۔ ڈاکٹر نے اسٹریچر اس کے قریب روکا اور بوسہ ”بیگم کو بوسہ دو۔“ مائیک جھکا اور آہستہ سے ٹریسی کے ماتھے پر بوسی دیا۔ اُسے یہ خوف محسوس ہوا کہ وہ بیوی کو آخری بار چوم رہا ہے۔ اس کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ قدرتِ الٰہی سے ایک کرشمہ ظہورپذیر ہو چکا۔
متوحش ڈاکٹرسٹیفن بھاگم بھاگ آپریشن روم پہنچی۔ اس نے جب مریضہ کا معاینہ کیا تو دل کی دھڑکن کو باقاعدہ اور معمول کے مطابق پایا۔ بہرحال ٹریسی کو خودکار طریقے سے سانس دینے والی مشین کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ اس نے پھر آنول علیحدہ کی۔ پھر چیرے پر ٹانکے لگانے سے قبل اس نے تمام تر تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے جائزہ لیا کہ دل دھڑکنا کیوں رکا اور پھر کیسے چل پڑا؟ تاہم وہ کوئی واضح وجہ نہیں جان سکی۔
جب آپریشن مکمل ہوچکا، تو ڈاکٹر نرسوں کے ہمراہ مریضہ کو انتہائی نگہداشت کے کمرے میں لے گئی۔ وہ ٹریسی کی صحت یابی کا پورا بندوبست کرنا چاہتی تھی جو بظاہر بے ہوش مگر جیتی جاگتی حالت میں تھی۔ اچانک وہ جاگ اٹھی، اس نے منہ سے سانس کی نالی نکالی اور پوچھا ”میں کہاں ہوں، میرا بچہ کہاں ہے؟“ اُسے بیدار دیکھ کر پہلے تو ڈاکٹر سٹیفن حیران ہوئی اور پھر اطمینان و مسرت کی لہر اس کے چہرے پر دوڑ گئی۔
ہال میں بیٹھا مائیک بہت پریشان تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ نرس اور ڈاکٹر آپریشن روم میں آجارہے ہیں۔ اسے کچھ خبر نہ تھی کہ بیوی اور بچہ کس عالم میں ہیں اور لگتا تھا کہ وقت کھنچ کر بڑا طویل ہوگیا۔
شام کو آخر ایک نرس اُسے کمرے میں لے گئی اور بیٹا مائیک کی بانہوں میں ڈال دیا۔ ششدر باپ کو پہلے یہی محسوس ہوا کہ بیٹا مردہ ہے۔ حالانکہ کمزوری نے اُسے نڈھال کررکھا تھا۔ جب باپ کی آغوش میں وہ تھوڑا سا ہلا تو باپ کی جان میں جان آئی۔ باپ کے لیے وہ ننھی منی حرکات کسی معجزے سے کم نہ تھیں۔ مائیک خوشی سے کہتا ہے ”اور وہ میری بانہوں میں زندہ ہوگیا۔“
تھوڑی دیر بعد وہ اپنی چہیتی بیگم سے بھی ملا۔ جب دونوں کو علم ہوا کہ ڈاکٹرسٹیفن کے باعث ٹریسی اور بچے کو نئی زندگی ملی ہے، تو وہ اس کے بہت شکرگزار ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر کے بروقت فیصلوں اور ان تھک محنت کی وجہ سے2قیمتی انسانوں جانوں کی جان بچ گئی۔
اس رات ڈاکٹر سٹیفن نے دن کو بیتا حیرت انگیز واقعہ اپنے شوہر کو سنایا۔ دونوں نے اتفاق کیا کہ ایسا ڈرامائی واقعہ انھوں نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ یہ حیرت ناک امر ہی تھا کہ ٹریسی کا دل بغیر کسی معلوم وجہ کے رک گیا اور زیادہ حیران کن بات یہ کہ وہ اچانک پھر دھڑکنے لگا۔ بہرحال ڈاکٹر سٹیفن کو یہ ازحد خوشی تھی کہ وہ کرسمس کی شام ایک خاندان کو بُری خبر سنانے سے بچ گئی۔
آج بھی ٹریسی کو موت سے آمنا سامنا یاد ہے۔ اگلے جہان جانے میں کچھ ہی کسر باقی تھی کہ وہ زندگی کی طرف پلٹ آئی۔ وہ کہتی ہے ”اس خوفناک واقعے نے مجھے سبق سکھایا کہ روزمرّہ معاملات میں آنے والی پریشانیوں اور تکلیفوں کو دل پر نہیں لینا چاہیے۔ لہٰذا میں انھیں جلد بھلا کر اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ زندگی سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔“
جبکہ مائیک کا کہنا ہے کہ کرسمس کی اس شام حقیقتاً ایک کرشمہ ظہورپذیر ہوا…… اس شام جب ایک بچے نے جنم لیا، ایک ماں کی جان بچ گئی اور ایک قابل و محنتی معالج اپنا کھویا ہوا اعتماد پانے میں کامیاب رہی۔