کیا کرے شمع ِ نوخیز و نایافتہ ضعف ِ بازار سے خوف کھائی ہوئی
اک تو بردہ فروشی کا ڈر اس پہ ہے نیند پہرہ گزاروں کو آئی ہوئی
رقص کرتی ہوئی طائفے میں قضا ، زہر آلودہ انجام سے مطمئن
لطف اندوز ہیں تیغ برداریاں ، کام کر جائے گی ، مے پلائی ہوئی
ہم قدامت کے آثار سب کھود کر چٌن سکے بھی تو عبرت کی پرچھائیاں
لوگ قبروں سے تہذیب ڈھونے لگے ، لڑکھڑائی ہوئی ، ورغلائی ہوئی
ابتدائی پرستش کا ہو فیض کیا ، بد سلیقہ تھے معبد ، محل٘ات کے
آسمانی عذابوں سے پہلے نہ تھی ، یہ زمیں اس قدر لہلہائی ہوئی
جس کو یکسر بجھانے کی خاطر ہیں کم ، آٹھ نو سو برس مستقل بارشیں
میری مٹی کی تہ میں وہی آگ ہے ، کسمسائی ہوئی ، ہچکچائی ہوئی
آج کا ارتقا خود سے مرعوب ہے ، سب اساطیر کی بیڑیاں کھول کر
مت سنا واقعہ پھر سے کنعان کا ، قرطبہ کی کہانی ، سنائی ہوئی
اجتماعی دھماکوں کی ترکیب سے ، زندگی کو مشینوں میں ڈھالا گیا
زندگی ، جس کو ہے دل نے جھیلا ہوا ، زندگی ، جسم و جاں نے بتائی ہوئی
مردہ دھاتوں سے تحریر ہونے کو ہیں ، زندہ سی٘ارگاں کے سفر نامچے
پچھلی چھاؤں کا قصہ سناؤں گا میں ، دوسرے پیڑ تک جو رسائی ہوئی
اور مقصد نہیں ہے ضمیر ِ سخن ، کچھ ستارہ نوردی کا اس کے سوا
نعمتوں کے خدا تک پہنچ تو سکے ، کہکشاں سے یہ سیڑھی لگائی ہوئی
ضمیر قیس