آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریضمیر قیس

کیا کرے شمع ِ نوخیز

ضمیر قیس کی ایک اردو غزل

کیا کرے شمع ِ نوخیز و نایافتہ ضعف ِ بازار سے خوف کھائی ہوئی
اک تو بردہ فروشی کا ڈر اس پہ ہے نیند پہرہ گزاروں کو آئی ہوئی
رقص کرتی ہوئی طائفے میں قضا ، زہر آلودہ انجام سے مطمئن
لطف اندوز ہیں تیغ برداریاں ، کام کر جائے گی ، مے پلائی ہوئی
ہم قدامت کے آثار سب کھود کر چٌن سکے بھی تو عبرت کی پرچھائیاں
لوگ قبروں سے تہذیب ڈھونے لگے ، لڑکھڑائی ہوئی ، ورغلائی ہوئی
ابتدائی پرستش کا ہو فیض کیا ، بد سلیقہ تھے معبد ، محل٘ات کے
آسمانی عذابوں سے پہلے نہ تھی ، یہ زمیں اس قدر لہلہائی ہوئی
جس کو یکسر بجھانے کی خاطر ہیں کم ، آٹھ نو سو برس مستقل بارشیں
میری مٹی کی تہ میں وہی آگ ہے ، کسمسائی ہوئی ، ہچکچائی ہوئی
آج کا ارتقا خود سے مرعوب ہے ، سب اساطیر کی بیڑیاں کھول کر
مت سنا واقعہ پھر سے کنعان کا ، قرطبہ کی کہانی ، سنائی ہوئی
اجتماعی دھماکوں کی ترکیب سے ، زندگی کو مشینوں میں ڈھالا گیا
زندگی ، جس کو ہے دل نے جھیلا ہوا ، زندگی ، جسم و جاں نے بتائی ہوئی
مردہ دھاتوں سے تحریر ہونے کو ہیں ، زندہ سی٘ارگاں کے سفر نامچے
پچھلی چھاؤں کا قصہ سناؤں گا میں ، دوسرے پیڑ تک جو رسائی ہوئی
اور مقصد نہیں ہے ضمیر ِ سخن ، کچھ ستارہ نوردی کا اس کے سوا
نعمتوں کے خدا تک پہنچ تو سکے ، کہکشاں سے یہ سیڑھی لگائی ہوئی

ضمیر قیس

ضمیر قیس

ضمیرقیس ملتان سے تعلق رکھنے والا شاعر ہے غزلوں کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں اس کے پہلے مجموعے سے ہی اس کی غزل اٹھان نے ثابت کردیا تھا کہ ملتان سے غزل کا ایک اہم شاعر منظر عام پر آرہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button