خوابوں کی تعبیر نہیں ہے
تُو میری تقدیر نہیں ہے
فکر مری جذبات سے عاری
لفظوں میں تاثیر نہیں ہے
آہیں، اشک، چبھن، اور گریہ
ہجر کی یہ تفسیر نہیں ہے
اب بھی ذہن غلام ہے لیکن
پاؤں میں زنجیر نہیں ہے
ایک وہی دکھتا ہے مجھ کو
سامنے گو تصویر نہیں ہے
آنے میں کچھ وقت لگا ہے
جانے میں تاخیر نہیں ہے
آنکھ کی بینائی کیا کیجیے
جب دل میں تنویر نہیں ہے
مر کر ہی کچھ عزت ہو گی
جیتے جی توقیر نہیں ہے
عام سی لڑکی ہے روبینہؔ
سوہنی، سسّی، ہیر نہیں ہے
روبینہ شاد







