کرتا ہے کب سلوک وہ اہل نیاز سے
گفتار اس کی کبر سے رفتار ناز سے
یوں کب ہمارے آنسو پچھیں ہیں کہ تونے شوخ
دیکھا کبھو ادھر مژئہ نیم باز سے
خاموش رہ سکے نہ تو بڑھ کر بھی کچھ نہ کہہ
سر شمع کا کٹے ہے زبان دراز سے
اب جا کسو درخت کے سائے میں بیٹھیے
اس طور پھریے کب تئیں بے برگ و ساز سے
یہ کیا کہ دشمنوں میں مجھے ساننے لگے
کرتے کسو کو ذبح بھی تو امتیاز سے
مانند شمع ٹپکے ہی پڑتے ہیں اب تو اشک
کچھ جلتے جلتے ہو گئے ہیں ہم گداز سے
شاید کہ آج رات کو تھے میکدے میں میر
کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے
میر تقی میر