بہت دن بعد طبعیت کچھ بہتر ہوئی تو وہ باہر صحن میں آکر بیٹھ گئی کھلے أسمان کے نیچے وہ تازہ ھوا کے جھونکوں کو اپنے اندر اترتا ھوا محسوس کر رہی تھی۔
پر اسکی آنکھوں کے سیاہ ہلکے زردی مائل رنگ اور اترا ھوا چہرہ اسکی اذیت کو کھلے عام ظاہر کر رہا تھا۔
میری بچی باہر ھے میں اندر ڈھونڈ رہی تھی۔ہاں اماں گھٹن ھو رہی تھی سوچا باھر بیٹھ جاؤ شاید بہتر محسوس ھو۔ارے بچے کیوں نہی ۔ارے رابعہ جا آپی کے لیے دودھ کا گلاس لے کر آ ۔اماں رہنے دیں رات کو چاۓ بنا لیں گے۔
ویسے بھی ابھی دل نہی کر رہا کچھ کھانے پینے کو۔پتر اک بات کہوں۔جی اماں جو ھونا۔تھا وہ تو ھو گیا ۔کب تک ایسے سوگ مناؤ گی۔وہ تو اپنی ذندگی میں آگے بڑھ گیا پتر اب بس کر دے۔
اک مسکراہٹ کے ساتھ
اماں یہ طلاق لفظ کہنے میں کتنا آسان و ہلکا لگتا ۔پر اماں اسکی قیمت و وزن اس زمانے میں سب سے بھاری ھے۔اس نے تین بار کہہ کر گھر سے نکال دیا ۔اسکا کام ختم
پر اماں میری ذندگی کے وہ سال برباد ھو گۓ جو میں نے اسکی غلامی و خدمت میں گزارے تھے۔
تمہیں آکر بتاتی تھی ناں وہ یہ کرتا سب ظلم کرتا اماں میں کیا کروں۔تم آگے سے یہ کہہ کر واپس بھیج دیتی تھی نہی گھر بساؤ مرد ایسا ہی ھوتا ھے۔وہاں بسنا ھے بیٹیاں اک دفعہ بیاۀ دی جاۓ تو جنازے واپس آتے ہیں ۔تو اماں سمجھ لو میرا بھی جنازہ آیا ھے میری امیدوں کا خوابوں کا۔خواہشوں کا ۔میری ادھوری پڑھائ کا۔میری انا کا اماں اب لاش کیسے مسکراتی ھے۔
اتنی اوکھی باتیں نہ کیا کر ذندگی ھے ۔اماں ذندگی تب بھی تھی۔اذیت تب زیادہ تھی اماں طعنے تھے غصہ تھا۔مار تھی۔درد تھا تب میں نظر نہی تھی أرہی بس گھر بساؤ گھر بساؤ ۔بیشک بیٹی اندر سے مر جاۓ لیکن نہی ۔اماں گھر مل کر بساۓ جاتے ہیں ۔مرد تھامنے والا ہو۔مخلص ھو۔عزت دینے والا ھؤ۔روٹی تو یہاں بھی مل رہی ھے۔روٹی تو کسی دربار پر بھی مل جاتی ھے۔
پر اماں وہ تشدد جسم پر نہی روح پر ھوتا ھے جو اک مرد اپنی انا و غیرت کے نام پر اپنی بیوی پر کرتا ھے. یہ سوچ کر کہ اس کے پیچھے کون آۓ گا کونسا باپ آکر. پوچھے گا میری بیٹی پر ھاتھ کیوں اٹھایا تب بھائیوں کی عزت کے نام پر غیرت کہاں ھوتی ھے۔اماں بیٹیاں بھی ویسے ہی پیدا ھوتی ہیں ناں جیسے بیٹے ھوتے ہیں تو تفریق کیوں۔؟پتر تیری ان۔باتوں کا کیا جواب دوں
اماں جواب مانگ کون رہا ہے۔اب جواب کہا. بنتا دینا ۔اماں مانا ماں باپ نصیب نہی لکھتا پر اماں جب اک بیٹی گھر آکر اپنے ماں باپ کو بتاتی ھے کہ وہاں یہ ظلم میرے ساتھ ھو رہا ھے پھر گھر والے کیوں اسکو اسی آگ میں جھلسنے دیتے ہیں ۔اماں کبھی بگڑے بھی سدھرے ہیں ہاں انکے بگڑوں کو سدھارنے کے لیے کسی کی بیٹی لے آو اور بس وہ بگڑا ھوا اس سدھری ہوئی بیٹی کو ایسا بیگاڑے کہ کوئی پہچان نہ سکے بلکل میری طرح۔دیکھوں اماں تین ماۀ ہونے والے نیلوں کے نشان أبھی بھی ہیں۔اماں۔ میں تیرا پتر ھوتی ناں تو اس حال میں نہ ھوتی ۔
نہ کر بس کر دے معاف کر دے ھمیں ہم بے بس تھے کیا کرتے بیٹیاں گھروں میں نہی بیٹھائ جاتی۔واہ اماں بیٹیاں برباد کروائ جاتئ ہیں۔
تو اب جو کہے گی وہ ھو گا ۔اب کیا ھو گا ۔بتا اماں میرا درد کم ھوگا۔مجھ پر طلاق کا لگا داغ مٹے گا۔ابا کا قرض ختم ھوگا۔میری روح کو سکون ملے گا ۔کیا ھو گا اب۔
پتر کیا کہوں اب ۔کچھ نہ کہوں اماں میری ساتھ والی باجی سے بات ہوئی ھے کچھ دن کی عدت ھے پھر میں سکول میں بچوں کو پڑھاؤ گی ۔اب اس گھر میں رہنا ہے تو بوجھ بننے سے بہتر ہے کما کر اپنا کھا لوں اور اپنی پڑھائ مکمل کرؤ ساتھ اسکو پڑھاؤ تاکہ کل کو یہ بہترین مستقبل بنا سکے۔
اماں بیٹیاں اتنی سستی نہی ھوتی۔
وہ بھی بیٹوں کی طرح قیمتی اثاثہ ھوتی ھے۔
وہ اک مسکراہٹ کے ساتھ اٹھ کر جانے لگی تو رک کر بوگی۔ اماں اللہ سے نصیب کی دعا کے ساتھ بیٹیوں کی مضبوط بنایا کرو تاکہ باہر کے بھیڑیوں سے مقابلہ کرنے کے تو قابل ھوں ورنہ جب مرد کا تھپڑ پڑتا ہے ناں تو بڑا درد ھوتا۔
نم أنکھوں کے ساتھ وہ چلی گئ اور اماں اسکو دیکھتی رہ گئی۔
شاید وہ دیر کر چکی تھی۔اور انکی بیٹی آگے بڑھ چکی تھی۔
صنم فاروق
رقیب تحریر