بات کُچھ بھی نہ تھی
ہاں مگر اک گُزارش کا آغاز تھا
وہ گُزارش جو
جو سوکھے لبوں کی ہوس
چیرتی اک فسوں کے مقابل کھڑی ہوگئی
لفظ در لفظ ایسی شکن آپڑی
نقطہؑ نو جسے پار کرتے ہوئے
دستِ بے فیض کی
تشنہ کامی کو دیکھے بنا
کپکپاتا رہا
خواب آنکھوں سے جھڑ کر بکھرتے رہے
شہرِ مدفون کی تابناکی
تلسمی نگاہوں کو ڈستی رہی
تودہؑ خاک بھی
زیرِ گرداب جامِ طلب بانٹنے میں یوں مشغول تھا
جسطرح کوئی بامِ افق پر ستاروں کی ترتیب
کو چھیڑنے کے لیے استعارہ کرے
پھر بھلا چاند کیسے گُزارہ کرے
سربکف سرنگوں
لڑکھڑاتی ہوئی اک کہانی
کسی دستِ چابک
کی تدبیر کے سامنے سرجھکاتی رہی
موڑ بنتے رہے
اور کردار بھی شہر و قریہ سے بہتی ہوئی تیرگی
گرد آلود کوزوں میں بھرتے رہے
کام چلتا رہا
روگ پلتا رہا
عمران سیفی