ہمارے سجود بھی ایسے ہیں قرض جیسے چکانا ہے
ہمارا سجدہ ابھی سجدوں کی لذت سے ناآشناء ہے
خدا کو مانتے ہیں مگر خدا کی مانتے نہیں یاروں
امید پھر بھی لگارکھی ہے ہمیں جنت میں جانا ہے
سجدہ تو ہے اک بہانہ رب سے گفتگو کا اگر سمجھو
کچھ رو رو کے کچھ ضد کر کے بس اسے منانا ہے
اک بارجاکر سجدے میں زرا گڑگڑاکر تو دیکھو بس
آنکھوں سے اپنے آنسو کا ایک قطرہ تمہیں گرانا ہے
جو سکون مئیسر ہوگا اپنے دل کو تمہارے یاروں
محسوس ہوگا رب کو جیسے بس یہیں پہچانا ہے
مل گئی جسے یوسف سجدوں کی لذت اک بار
سجدے میں پڑے سر کو پھر کہاں اس نے اٹھانا ہے
یوسف برکاتی