دل و نگاہ کے حسن و قرار کا موسم
وہ تیری یاد ترے انتظار کا موسم
جھکی ہے آنکھ کئی رت جگے سمیٹے ہوئے
چھپا ہے لمس میں کیسا خمار کا موسم
ہمارے پیار نے عمرِ دوام مانگی ہے
ہمیں قبول نہیں تھا اُدھار کا موسم
فراق لمحوں کو ہم نے حسیں بنایا ہے
سجا کے دِل میں ترے اعتبار کا موسم
ملی نگاہ تو اِک پل میں ہم پہ گزرا ہے
کروڑ قربتوں لاکھوں قرار کا موسم
ہمارے پیار کی یہ بھی ادا نرالی ہے
خزاں کی رُت میں منایا بہار کا موسم
شازیہ اکبر