میرے شوہر نور الحسن صدیقی جو مشہور ناول نگار ابوالفضل صدیقی کے سگے بھتیجے ہیں اور نذر الحسن صدیقی کے سگے بھائیں ہیں۔ انہوں نے سائیکولجی میں ماسٹر کیا ہے، ان کو اچانک فالج ہوگیا تھا اور وہ کوما میں چلے گئے تھے ۔میرے دونوں بچے (بیٹا اور بیٹی) امریکہ اور کینیڈا میں مقیم تھے کراچی میں تنہا ہونے کے سبب شوہر کی تیمارداری کی سب ذمہ داری مجھ پر آگئی تھی جس سے شاعری کا سلسلہ رک گیا تھا۔ میں نے اپنی شاعری کی ابتدا بچپن ہی میں اسکول کے زمانے میں کردی تھی اور بچوں کی دنیا اور نونہال میں چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھا کرتی تھی۔ پھر جب میں کالج میں گئی تو اس کے میگزین میں میری نظمیں چھپتی تھیں۔ اچھی پرفارمنس پر کالج میں انعامات بھی ملے اور میں کالج کے مشاعروں میں بھی حصہ لیتی رہی۔ 2000ء میں حج کے دوران نعتیہ شاعری شروع کردی اور اب خدا کا شکرہے کہ میں شوہر کی طرف سے مطمئن ہوں اور باقاعدہ اس پر کام کررہی ہوں۔ شعر کہنے کے باوجود میں نے اپنے کلام کی اشاعت کے بار میں سوچا بھی نہیں تھا البتہ اک خاص کیفیت سے متاثر ہوکر میرا جی چاہا کہ میری یہ عشقِ رسول کی کیفیت کو بھی منظر عام پر آنا چاہیے لہذا کچھ ہی عرصہ قبل کراچی سے شائع ہونے والے دو مجلے”سلسلہ” اور”داستان ڈائجسٹ” کے شخصیات نمبر منظر عام پر آئے جن میں میری شخصیت اور میرے نعتیہ کلام کو احسن طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی اشاعت سے میرے عقیدت مندوں میں نہ صرف خوشی کی لہر دوڑی بلکہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ چونکہ شوہر کی بیماری کے دس سال کے عرصے میں شاعری پر زیادہ توجہ نہ دے سکی تھی اور میری شاعری کے مجموعے کی اشاعت بھی اسی لیےرک گئی تھی۔ اب اللہ کی رضاسے شاعری پر دوبارہ توجہ دینے کے سبب اپنے شعری مجموعے کی اشاعت کے خیال نے تقویت پائی اور میری نعتوں کا مجموعہ”رنگ عقیدت” تکمیل کے مرحلے سے گزرا۔
میں یہاں ایک بار مزید دہرانا چاہتی ہوں کہ میں کینیڈا میں چھ سال سے مقیم ہوں لیکن میری پیدائش 30 اپریل کو پاکستان کی حسین وجمیل وادی”مری” میں ہوئی، بعدازاں 2 سال کے بعد کراچی میں مستقل قیام کیا اور اپنی تعلیم بی ۔ایس۔سی انر مکمل کرکے ہیلتھ پبلک کالج سے ڈگری حاصل کی پھر پاپولیشن پلاننگ میں ٹریننگ لے کر فیملی ویلفئیر آفیسر سے گورنمنٹ سروس سول ہسپتلا کراچی سے سروس کا آغاز کیا۔ 20 سال اسی محکمے سے وابسطہ رہی۔ شوہر نور الحسن صدیقی کی اچانک طبیعت کی ناسازی stock کی وجہ سے سروس کو خیر باد کرنا پڑا اور ساری توجہ تیمارداری پر وقف کردی 13 سال کا عرصہ ذہنی خلفشار میں مبتلا رہا۔ گاہے بگاہے شاعری ہوتی رہی۔ میں نے ایک ادبی ماحول میں آنکھ کھولی پھر شادی کے بعد ادبی ماحول ملا میرے شوہر نورالحسن صدیقی کے سگے تایا ابوالفضل صدیقی مشہور ناول نگار تھے۔ ان کے بھائی نورالحسن صدیقی بھی افسانہ اور ناول نگار تھے لہذا ادبی ماحول سے میری شعور کو جلد ملتی رہی۔
میرے دو بچے۔ بیٹا جمال حسن اور بیٹی ماہ رخ امریکہ اور کینیڈا میں قیام پذیر ہیں دونوں ماشاء اللہ انجینئر ہیں (کمپیوٹر) اور اپنی اپنی job میں مصروف ہیں۔ میں اپنے بیٹے کے ساتھ اب کینیڈا میں مقیم ہوں۔ لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ اپنی چھوٹی چھوٹی نظمیں کہانی وغیرہ بچوں کے رسالے، کھلونا، تعلیم وتربیت، بچوں کی دنیا میں تواتر سے چھپواتی رہی۔ پھر شاعری اور کلام کالج کے میگزین کی زینت بنتے رہے آنکھ کھولی تو والدین اور بزرگوں کی زبان پر تلاوت قرآن کے زم زمے مچلتے ہوئے دیکھے۔ مناجات، دعائیں، عشق رسولؐ و آل رسولؐ سے لبریز ان کا دل اور انبیاء عظام الہی عشق پیغمبر میں دل باختہ زندگی میری نظروں کےسامنے رہی اور میری تربیت میں اتنی موثر ہوئی کہ رفتہ رفتہ جب میں نے ہوش سنبھالا کیونکہ اس پاکیزہ خوشبوئے ہمارے شام جاں کو اس طرح معطر کیا۔ اور جسم وجاں میں اس طرح رچ بس گئی اور روئیں روئیں میں اتر گئی جب ہوش سنبھالا ان حقائق کی صداقت کونظریات کے صداقت کو عقل وفہم کے میزان کو پرکھنے کامسئلہ ہوا تو بڑی آسانی سے بغیر کسی ہٹ دھرمی لاشعو ر سے شعور کی وادی میں قدم رکھا قلب وروح میں عشق کو انڈیل دیا۔ حقائق روشن تھے عشق رسول اور آل رسولؐ کو قلب وروح میں انڈیل دیا، نہ کوئی حوالہ مد نظر رہا نہ ہی کسی چیز کی طلب رہی۔ طبیعت بے نیاز ہوگئی اور ایسا لگا کہ کائنات کی ہر شہ میسر آگئی۔
منقبت کو بنایا لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ میں نے دوسری اصناف شاعری یا اپنے دور کے جدید ادبی رجحانات کو قابل اعتماد نہ سمجھا بلکہ دوسری اصناف شاعری سے بھی لگاؤ ہے۔ اور کینیڈا کے ہونے والے مشاعروں میں میری شرکت باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ 2000ء میں اپنے پہلے حج کے دوران جب روضہ رسولؐ پر حاضری دے رہی تھی۔ دفعتاً قلب ونظر اور روح میں ایک ایسا انوکھا انقلاب آیا کہ نعتیہ شاعری شروع ہوگئی۔ میری دنیا ہی بدل گئی، جب بھی قلم اٹھاتی ہوں۔ روضہ رسولؐ سامنے آجاتا ہے اور پھر کچھ اور لکھنے کی طبیعت نعت رسولؐ کی طرف راغب ہوجاتی ہے، یہ میرا کچھ کمال نہیں میں تو فقیر ہوں۔ کشکول لے کر بارگاہِ رسول اکرم ؐ میں بیٹھ جاتی ہوں۔ الفاظ ان کو چھو چھو کر میرے کشکول میں بھیک کی صورت میں ملتے ہیں بس میں ان گوہر کو ایک خوبصورت مالا میں بنا کر سجا کر ترتیب دے کر سجالیتی ہوں اور ان کی ثناء ہوجاتی ہے اور نعت بن جاتی ہے یہ اللہ اور رسول پاک ؐ کا مجھ ناچیز پر کرم ہوا ہے۔
منقبت کو بنایا لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ میں نے دوسری اصناف شاعری یا اپنے دور کے جدید ادبی رجحانات کو قابل اعتماد نہ سمجھا بلکہ دوسری اصناف شاعری سے بھی لگاؤ ہے۔ اور کینیڈا کے ہونے والے مشاعروں میں میری شرکت باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ 2000ء میں اپنے پہلے حج کے دوران جب روضہ رسولؐ پر حاضری دے رہی تھی۔ دفعتاً قلب ونظر اور روح میں ایک ایسا انوکھا انقلاب آیا کہ نعتیہ شاعری شروع ہوگئی۔ میری دنیا ہی بدل گئی، جب بھی قلم اٹھاتی ہوں۔ روضہ رسولؐ سامنے آجاتا ہے اور پھر کچھ اور لکھنے کی طبیعت نعت رسولؐ کی طرف راغب ہوجاتی ہے، یہ میرا کچھ کمال نہیں میں تو فقیر ہوں۔ کشکول لے کر بارگاہِ رسول اکرم ؐ میں بیٹھ جاتی ہوں۔ الفاظ ان کو چھو چھو کر میرے کشکول میں بھیک کی صورت میں ملتے ہیں بس میں ان گوہر کو ایک خوبصورت مالا میں بنا کر سجا کر ترتیب دے کر سجالیتی ہوں اور ان کی ثناء ہوجاتی ہے اور نعت بن جاتی ہے یہ اللہ اور رسول پاک ؐ کا مجھ ناچیز پر کرم ہوا ہے۔
میرا حضور پاکؐ سے عشق بالا حدوں تک پہنچ گیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کے انؐ کے نام سے میری پہچان ہو:
جانتے ہیں تجھے نعت گوئی سے سب
اے منور یہ تیرا پتہ خوب ہے
آخر میں یہ کہنا چاہوں گی میری اس ادنیٰ صلاحیت کو بارگاہ الٰہی، بارگاہِ رسولؐ اور آلِ رسولؐ میں مقبولیت حاصل ہو اور مرتے دم تک ایمان پر سب مسلمان قائم رہیں اور ان کی شفاعت سے بہر مند ہوں۔ آمین ثم آمین
اب میں آخر میں ان تمام حضرات گرامی کی شکر گزارہوں اور خلوص دل سے منت پذیر ہوں جنہوں نے میرے مجموعہ کلام کو بنظر استحسان دیکھا اور پسند فرمایا۔ اپنی رفیع نگارشات سے نوازا۔ افسوس کہ ان میں سے میرے ایک بزرگ محترم جنا ب صوفی ابرار علی صدیقی اب بقید حیات نہیں ہیں، میں دعا کرتی ہوں اللہ پاک ان کی روح کو اپنی رحمت کی آغوش میں جگہ دے۔ آمین
میری نگارشات
نعت و منقبت کے 3 مجموعے
1 -رنگِ
عقیدت
2-منزل عشق
3-بہشت تصوّر
شعری مجموعے
1-گلہاۓ رنگ رنگ
2-آبگینۂ خیال
3نگارستانِ منوّر