اب وہ خود محوِ علاج دردِ پنہاں ہو گئے
اے خوشا قسمت کہ پھر جینے کے ساماں ہو گئے
سوچ تو لیتے آئینے میں کس کا عکس ہے
اک ذرا سی بات پر اس درجہ حیراں ہو گئے
میں تو سمجھا تھا کہ یہ بھی اک فریبِ حسن ہے
اُف رے غیرت وہ تو سچ مچ پیشیماں ہو گئے
دید کے قابل ہے فیضِ رہ نور دانِ جنون
خارد دامن سے اُلجھ کر گل بداماں ہو گئے
صدقہ جاں سوز ی فرقت تو مجھ پر بار تھا
میری حالت دیکھ کر تم کیوں پریشاں ہو گئے
کون رکھے گا جہاں میںکفرِ سامانی کی لاج
عشق میں جب ہم جیسے کافر جب مسلماں ہو گئے
حضرت واعظ جہاں کی لذتوں سے کیوں ہو دور
وہ فرشتہ خصلتی کیسی ، جب انساں ہو گئے
عہدِ فروا ، اک بہانہ ہی سہی لیکن شکیل
اس بہانے سے سکونِِ دل کے ساماں ہو گئے
شکیلؔ بدایونی