سب حال سے بے خبر ہیں یاں تو
برہم زدہ شہر ہے جہاں تو
اس تن پہ نثار کرتے لیکن
اپنی بھی نظر میں ٹھہرے جاں تو
برباد نہ دے کہیں سراسر
رہتی نہیں شمع ساں زباں تو
کیا اس کے گئے ہے ذکر دل کا
ویران پڑا ہے یہ مکاں تو
کیا کیا نہ عزیز خوار ہوں گے
ہونے دو اسے ابھی جواں تو
غنچہ لگے منھ تمھارے لیکن
صحبت کا اسے بھی ہو دہاں تو
کیا اس سے رکھیں امید بہبود
پھرتا ہے خراب آسماں تو
یہ طالع نارسا بھی جاگیں
سو جائے ٹک اس کا پاسباں تو
مت تربت میر کو مٹائو
رہنے دو غریب کا نشاں تو
میر تقی میر