جب ہی تو فرق آنے لگا ہے اڑان میں
باندھا گیا سفر کا ارادہ تکان میں
جسکو سمجھ رہا ہے تو دیوارمیرے دوست
دروازہ کہتے ہیں اسے میری زبان میں
ٹھہری ہوئی ہے اب بھی ترے ساتھ گزری شام
آنے نہیں دی دھوپ ذرا بھی مکان میں
تو کس طرح کی قید میں مدت سے قید ہے
زندان جیسا حبس ہے تیرے بیان میں
اک خواب جاگنے لگا آنکھوں میں آجکل
تازہ گلاب سج گیا ہے پھول دان میں
آنکھوں سے بڑھ کے پیارے ہیں تعبیر سے عزیز
رکھنا ہمارے خوابوں کو مولا امان میں
شہلا خان