ستاروں سے کہہ دو رہیں ہوش میں اب
ہیں سارے نظارے ہی آغوش میں اب
زمانے کو جلنے دو چھوڑو یہ ڈرنا
مرا نام کہہ دو مرے گوش میں اب
کوئی حادثہ ہونے کی ہے خبر یہ
تماشہ ہوا قلبِ خاموش میں اب
اگر ہے محبت وہ پہلی سی اب بھی
ملو تو ملو اتنے ہی جوش میں اب
معطر ہیں تیری طرح اسکی باہیں
تری خوشبو ہے تیرے ہمدوش میں اب
وہ بیٹھے ہوئے ہیں مرا تکیہ بن کر
میں سویا ہوا خوابِ خرگوش میں اب
نہ دو شیخ جی میرے جرموں پہ فتویٰ
بسی پارسائی ہے مے نوش میں اب
کسی کیلئے گھر ہوں بھُولا سو لکھ دو
مرا نام خانہ فراموش میں اب
میں بھی تھک چکا ہوں ستم سہتے سہتے
رہی ہے نہ ہمت ستم کوش میں اب
سبھی شاعروں سے ہے الفت ہاں لیکن
مرے دردِ دل کی دوا جوشؔ میں اب
سنا تھا بڑا نام اس مے کدے کا
میں جی بھر کے پی کر بھی ہوں ہوش میں اب
ناصر زملؔ