جو گزر گیا وہ ملال ہے
محمد شاہ زیب احمد کی ایک اردو غزل
جو گزر گیا وہ ملال ہے، یہ جو پاس ہے وہ بھی دھول ہے
جو بھی مل گیا وہ عطا سمجھ، جو نہ مل سکا وہ فضول ہے
اے خدائےِ حق تو کریم ہے، تری شان سب سے عظیم تر
میں فقیر تیرے ہی در کا ہوں، سو نوازنا تو اصول ہے
تری چاہ میں ہوا دربدر، کبھی اِس کے در کبھی اُس کے در
تو نہ مل سکا تو نصیب ہے، تو جو مل گیا تو حصول ہے
تری خشمِ ناز میں اشک کیوں، یہ صراطِ عشق ہے ڈر نہیں
یہ ہے راستہ بڑے لوگوں کا، یہاں رحمتوں کا نزول ہے
تو خزاں کی رت کا حمایتی، تو بہار سے نہیں آشنا
مرے باغِ دل میں سفر تو کر، کہ جگہ جگہ پہ ببول ہے
میں اگر مدینے گیا کبھی، تو دعا کروں گا میں بس یہی
جو میں مانگ لوں وہ عطا کرے، جو میں بولوں کہہ دے قبول ہے
تو نویدِ صبحِ بخیر ہے، میں چراغِ رنج و ملال ہوں
مری دوستی ہے اندھیروں سے، تجھے روشنی کا سہول ہے
ہے ستم گری بھی عروج پر، یہاں حق دبایا گیا سدا
جو قلم اٹھا کے لکھا کبھی، ہوئی زیب سے یہی بھول ہے
محمد شاہ زیب احمد