تاریخ کے وارث – تیسری قسط
ایک اردو افسانہ از شاکرہ نندنی
شام کے جھٹپٹے میں پارک کا منظر نہایت دلفریب تھا۔ درختوں کی پتیاں ہوا کے ساتھ ہل رہی تھیں، اور روشنی مدھم ہو رہی تھی۔ پانچوں دوست ایک بنچ کے گرد بیٹھے تھے۔ سنان گہرے انداز میں ان سب کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا لہجہ سنجیدہ اور مدلل تھا، لیکن اس کے چاروں طرف بیٹھے دوست مزاحیہ انداز میں بات کو ہلکا لینے کی کوشش کر رہے تھے۔
آلیان نے ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "یار، یہ سب کچھ مفروضے ہیں۔ کالج والوں کو پانچ سال مکمل کروانے ہیں نا، تو کبھی ہمیں مفروضے پڑھا دیتے ہیں، کبھی حقائق، اور پھر ایک دن ڈاکٹر کی ڈگری دے کر فارغ کر دیتے ہیں۔ لو، ہوگیا ٹیسٹ ٹیوب بے بی!”
یہ سنتے ہی باقی سب قہقہے مار کر ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ سنجیدہ مزاج سبرینا بھی ہنسی کو دبانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ فریڈ اور جوئے نے ایک دوسرے کو ہائی فائیو دیا، اور ماحول خوشگوار ہو گیا۔
سنان نے غصے سے کتاب بند کی اور جھٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھوں میں ناراضی اور لہجے میں چبھتی ہوئی شدت تھی۔ "میں مفروضوں یا تھیوری کا قائل نہیں ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مفروضے جھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر سائنس نہ ہوتی تو آج ہم یہاں بیٹھ کر یہ باتیں بھی نہ کر رہے ہوتے!”
سبرینا نے اسے پیار بھرے انداز میں اپنی جگہ پر بٹھایا۔ "سنان، آرام سے بیٹھو۔ دیکھو، ہم مذاق کر رہے ہیں، لیکن ہمیں تمہاری بات سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار پھر شروع سے بتاؤ۔”
سنان نے گہری سانس لی اور تحمل کے ساتھ دوبارہ بات شروع کی۔ "سائنس کسی بھی مفروضے کو رد نہیں کرتی جب تک کہ اس کا تجرباتی یا نظریاتی تجزیہ نہ ہو جائے۔ جو آج ایک مفروضہ ہے، کل وہ حقیقت بن سکتا ہے۔ اگر انسانی جینز کی اس قدرتی تخلیق کو سمجھ لیا جائے تو دنیا کے بہت سے طبی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔”
اس بار سبرینا سنان کی بات کو پوری توجہ سے سن رہی تھی۔ اس کے چہرے پر گہری سوچ عیاں تھی۔ اس کی آنکھوں میں سوالات کی جھلک تھی، اور پیشانی پر ہلکی سی شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔
ویٹر چائے لے کر آ گیا۔ اس نے چائے کے کپ سب کے سامنے رکھے۔ آلیان نے ایک کپ اٹھایا اور سنان کی طرف مذاق میں کہا، "لو، سنان بھائی، یہ چائے پیو اور ٹھنڈے ہو جاؤ۔”
سنان مسکرا دیا، لیکن سبرینا چپ تھی۔ وہ گہرے خیالات میں ڈوبی ہوئی تھی، جیسے اس کے اندر ایک جنگ چل رہی ہو۔ چائے کے بھاپ اڑاتے کپ کے سامنے وہ اپنی نظریں گاڑے بیٹھی تھی۔
آلیان نے اس کی خاموشی کو توڑنے کے لیے اس کے کندھے پر ہلکی سی چپت ماری اور شوخی سے کہا، "میڈم ڈاکٹر غزلیات! کیا ہو گیا؟ تمہاری چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے، اور تم جوئے کے پیسے ضائع کروا رہی ہو۔”
سبرینا جیسے نیند سے جاگی۔ اس نے ایک گہری سانس لی، لیکن چائے کے کپ کی طرف دیکھے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی۔ "کل ملیں گے۔ خاص طور پر تم، سنان اور جوئے، ضرور آنا۔ لیکن ابھی مجھے گھر جانا ہے۔ میری ماں انتظار کر رہی ہے۔”
رات کے وقت، سبرینا اپنی والدہ کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھی تھی۔ میز پر گرم کھانے کی خوشبو پھیل رہی تھی، لیکن سبرینا کا دھیان کہیں اور تھا۔ وہ چپ چاپ اپنے کھانے کو گھور رہی تھی۔
"بیٹی، آج کیا بات ہے؟ تم اتنی خاموش کیوں ہو؟” اس کی ماں نے سوال کیا۔
سبرینا نے ایک گہری سانس لی اور آج کے لیکچر کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ اس کا لہجہ سنجیدہ تھا اور آنکھوں میں سوچ کی گہرائی۔ "ماں، ہم نے آج کلاس میں ایک ایسا موضوع ڈسکس کیا جو بہت عجیب تھا۔ یہ اسپرم اور اوویوم کے جینیاتی مسائل کے بارے میں تھا۔”
اس کی ماں نے حیرت سے کہا، "بیٹی، میں ایک معمولی انکم ٹیکس وکیل ہوں۔ تمہاری یہ سائنسی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ آج سے پہلے تو تم نے مجھ سے اتنی تفصیل سے کبھی بات نہیں کی۔”
سبرینا نے اپنی ماں کو مزید تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اس کی ماں کی پیشانی پر الجھن کے آثار واضح تھے۔ آخر کار، ماں نے جھنجھلا کر کہا، "آخر تم چاہتی کیا ہو؟”
سبرینا نے اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا کہ وہ اس سائنس کے ذریعے کسی کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ یہ سن کر اس کی ماں چند لمحوں کے لیے خاموش رہی، پھر دھیمے لہجے میں بولی، "بیٹی، تمہاری سائنس میری سوچ سے بالا ہے، لیکن مجھے اتنا سمجھ آیا ہے کہ تم ماں بنو گی، وہ بھی بغیر شادی کے، اور وہ بچہ تمہارا اپنا ہوگا۔”
یہ سن کر سبرینا چونک گئی۔ "ماں، تمہیں کیسے کوئی اعتراض نہیں؟ یہ تو…”
اس کی ماں نے اس کی بات کاٹ دی۔ "مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔”
سبرینا حیرت سے بولی، "تاریخ؟ ماں، تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟”
اس کی ماں نے ایک گہری سانس لی اور ماضی کی یادوں میں ڈوبتے ہوئے کہنا شروع کیا:
"جب میں لاء کالج میں تھی، تو تمہارے نانا کا انتقال ہو گیا تھا۔ میرے پاس کوئی سہارا نہیں تھا۔ چار دوست تھے جنہوں نے میری مدد کا وعدہ کیا۔ ان کے نام تھے سیبسٹین، رینالڈ، ناہیان، اور ایلکس۔ ان سب نے میری تعلیم کے اخراجات اٹھائے، لیکن ایک شرط رکھی۔”
ماں کے الفاظ میں تلخی اور نرمی کا عجب امتزاج تھا۔
"میں نے ان کی شرط قبول کر لی، کیونکہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ لیکن ان کے ساتھ رہنا میری زندگی کا حصہ بن گیا۔ ان چاروں کے ساتھ، میں نے تمہیں جنم دیا، لیکن ان میں سے کسی نے بھی تمہیں قبول نہیں کیا۔ میں نے تمہارا نام ان سب کے ناموں کو ملا کر رکھا: سیبسٹین سے ‘سب’، رینالڈ سے ‘ری’، ناہیان سے ‘نا’، اور سر نیم ایلکس۔ اس طرح تم سبرینا ایلکس بنیں۔”
سبرینا یہ سب سر جھکائے سن رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے، اور دل میں ایک عجیب طوفان برپا تھا۔
ماں نے آخر میں کہا، "آج یہ راز بتا کر میرا دل ہلکا ہو گیا ہے۔ اب جاؤ اور وہی کرو جو تمہارے دل میں ہے۔ اپنے دل کی بات کو دبانا مت، ورنہ تم کبھی سکون نہیں پاؤ گی۔”
یہ کہہ کر ماں نے اسے گلے لگا لیا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر دیر تک روتی رہیں، جیسے برسوں کا بوجھ آنسوؤں کے ذریعے ہلکا ہو رہا ہو۔
شاکرہ نندنی