جب ان کو مرے اچھے برے کی نہیں پرواہ
مجھ کو بھی کسی "دودھ دھلے” کی نہیں پرواہ
سچ یہ کہ ابھی تک مجھے محبوب ہے وہ شخص
دکھ یہ کہ اسے میری ٹکے کی نہیں پرواہ
سو میں نے اسے روکنا سمجھا نہ مناسب
اس کو جو مرے شکوے گلے کی نہیں پرواہ
اک تیری گواہی ہو مرے حق میں مرے یار
پھر سارے زمانے کے کہے کی نہیں پرواہ
احساس سے عاری ہے یوں ہر شخص یہاں پر
زندوں کی نہیں فکر مرے کی نہیں پرواہ
اس بار مجھے اپنی ہی تلخی کی قسم ہے
تجھ جیسے کسی "نیم چڑھے” کی نہیں پرواہ
تہمت مرے کردار پے پہلے بھی لگی خوب
اب تو کسی بہتان نئے کی نہیں پرواہ
اس شہر میں جو لوگ بھی مسند پہ رہے ہیں
ان سب کو کسی کے بھی بھلے کی نہیں پرواہ
دریائے محبت میں ذرا سوچ کے اترو
اس کو تو کسی ڈوبے ترے کی نہیں پرواہ
جو فارحہ دشمن تھے کبھی پھر سے ہوئے یار
ان جیسوں کے اب ساتھ چلے کی نہیں پرواہ
فارحہ نوید
کمال شاعری