دکھ میں جلتے ہیں کبھی پیاس میں جلتے ہوئے ہم
ایک بچے کی طرح روز بلکتے ہوئے ہم
پھول تو پھول تھے خوشبو بھی ہماری تھی کمال
بے ثباتی کے ستم میں ہیں بکھرتے ہوئے ہم
آرزوئیں بھی بڑے کر ب لیے ہوتی ہیں
گیلی لکڑی سے اُجاغوں میں سلگتے ہوئے ہم
اپنا جیون بھی تو بچوں کی پہیلی جیسا
راکھ ہوتے کبھی تاروں سے دمکتے ہوئے ہم
ہم سے مفہومِ عبارت کا بھرم ہے قائم
تیری شہکار نگارش کے بھی نقطے ہوئے ہم
اِک ترے نا م کی تسبیح کریں گے، ملیں گے
ایک دن دشت کے اُس پا ر اُترتے ہوئے ہم
جانے کب کون سی بستی میں کہاں پھر سے ملیں!
سوچتے کب ہیں کسی روز بچھڑتے ہوئے ہم
اکرم کنجاہی