عشق گر ہاتھ چھڑائے تو چھڑانے دینا
کار وحشت پہ مگر آنچ نہ آنے دینا
یوں بھی آغاز میں ہر کام بھلا لگتا ہے
اول اول ہے اسے ہجر منانے دینا
اپنے بچے کو نہ نفرت کا پڑھا دینا سبق
ہاتھ دشمن سے ملائے تو ملانے دینا
یہ بھی کم ظرف محبت کا وطیرہ ہے میاں
جب نئے زخم کی خواہش ہو پرانے دینا
جس نے دامن مرا دکھ درد سے بھر ڈالا ہے
میرے مولا اسے خوشیوں کے خزانے دینا
عزت نفس سے بڑھ کر تو کوئی چیز نہیں
جو تمہیں چھوڑ کے جائے اسے جانے دینا
کومل جوئیہ







