دیئے سے ویسے ذرا پست قد بھی ہوتی ہے
ہوا کے پاس تو وجہ ِ حسد بھی ہوتی ہے
یہ جنگ اتنی سہولت سے میں نہیں ہارا
مجھے لگا تھا کہ غیبی مدد بھی ہوتی ہے
درخت یوں ہی تو قبروں پہ اگ نہیں جاتے
کہیں پہ کوئی ولی کی لحد بھی ہوتی ہے
اب اپنے آئینہ خانے کو کیسے سمجھائیں
یہ شخصیت ہے مری جان رد بھی ہوتی ہے
تمام عمر رہے ہم تو شرمسار یہاں
کسے پتہ تھا کہ وحشت سند بھی ہوتی ہے
پڑی ہے جب بھی کبھی مجھ پہ بوکھلایا ہوں
تو کیا دلوں کی نظر اتنی بد بھی ہوتی ہے
پھر ایک شام کسی کے نہ لوٹ آنے سے
پتہ چلا کہ دعا مسترد بھی ہوتی ہے
کہیں ملیں وہ مرے زخم بھولنے والے
تو ان سے کہنا اذیت کی حد بھی ہوتی ہے
ضمیر وقتی ضرورت ہے بس محبت اور
کبھی یہ وقتی ضرورت اشد بھی ہوتی ہے
ضمیر قیس