وہ اس کے پاس آبیٹھا جب چوک میں
اپنی چوڑیوں کا چھابا لگائے
وہ تنہا بیٹھی تھی
ہری،نیلی،پیلی اور گلابی چوڑیاں
چوڑیاں لے لو ۔۔چوڑیا ں لے
دھیرے سے اس کے کان میں بولا
اوروں کو بہت چوڑیاں پہنا دیں
اب تمھاری باری ہے لاؤ پکڑاؤ ۔ ۔۔ اپنی سُونی کلائی ۔۔۔۔
میں اسے چوڑیوں سے بھر دوں۔
وہ بے یقینی سے ٹھٹھکی تھی
اس کی آنکھ سے ایک سسکی بھی ٹپکی تھی
اسے چوڑیاں بیچنے کی عادت تھی، پہننے کی نہیں
اسی لئے وہ سہم کے بولی تھی :
سنو اجنبی
پنچھی درختوں سے اڑ جاتے ہیں
مسافر اپنا راستہ بدل جاتے ہیں
اور چوڑیوں کے رنگ اتر جاتے ہیں
وہ سنگدلی سے ہنسا اور پھر بولا تھا
وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا
میرے پاس بھی نہیں مگر یقین رکھو ۔۔
یہ رنگ کبھی نہیں بدلیں گے نہ اتریں گے
وہ چیخی : کچے رنگ ہیں اتر جاتے ہیں
اس نے قسم کھائی : ان چوڑیوں کے رنگ پکے ہیں
وہ چیختی رہی: میری کلائیاں چوڑیاں پہننے کے لئے نہیں بنیں
وہ وعدے کرتا رہا آج کے بعد یہی عادت ہو گی
ان کلائیوں کو ۔۔ ان چوڑیوں کی ۔۔۔۔
اور پھر جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھابے میں زنگ کی پہلی جھلک ابھری
تو وہ چیخی ۔۔۔ میں نہ کہتی تھی ۔۔۔۔
کیا کہتی تھی ؟ وہ بھی غصے سے چیخا
یہی کہ رنگ میں زنگ آجاتا ہے
اور پھر رفتہ رفتہ ۔۔۔
وہ زنگ چوڑیوں کی نس نس میں پھیلنے لگا
اور وہ چیختی رہی ۔۔۔۔۔
!!پھر وہ زور سے غرایا
تم پہلے بھی چیختی تھی جب رنگ سنہرے تھے
تم اب بھی چیختی ہو جب رنگ اڑنے لگے ہیں
تم تو بس چیختی ہی ہو ۔۔۔۔۔۔
!ہاں سب بدل جاتا ہے
لیکن تم نہیں بدلتی
تم پہلے بھی چیختی تھی۔۔ تم اب بھی چیختی ہو
چیخنا تمھای عادت
شک کرنا تمھاری فطرت
محبت کا نہ ملنا تمھاری قسمت ۔
یہیں مرو۔۔ اوروں کو چوڑیاں بانٹو
مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا
یہ کہتے ہی وہ اپنی جھوٹی دنیا میں لوٹ گیا
اور وہ چند لمحوں کے رنگ ، اور کچھ منٹوں کی روشنی
والے خواب سے سیدھی واپس اپنی اندھیر نگری میں آگری
جہاں وہ چوک میں چوڑیوں کا چھابہ لئے
پہلے ہی کی طرح بیٹھی ہو ئی تھی
کسی نے پو چھا : چوڑیاں بیچو گی ؟
وہ بولی : بکی ہو ئی چیزوں کو کتنی مرتبہ اور بیچوں ؟
سب مال بک چک ہے بابو ۔۔۔۔۔۔۔۔
خریدار بولا :باہر سے چھابہ بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے
وہ بولی اندر تو جھانکو بہیترسب خالی ہے۔
سولڈ آؤٹ ۔۔۔
سب کرنیں سولڈ آواٹ
سب رنگ سولڈ آوٹ ۔۔۔۔۔۔۔
ایسا آسیب ذدہ ویران چھابا دیکھ کر
خریدار سر پر پاؤں رکھ کر ایسا بھاگا
کہ پیچھے مڑ کے نہ دیکھا ۔
روبینہ فیصل