- Advertisement -

منزل بے نشاں

ایک افسانہ از ڈاکٹر عشرت ناہید

منزل بے نشاں

آج شام سے ہی کالی گھٹائیں گھِر آئی تھیں اور رات ہوتے ہوتے مزید گہری ہو تی گئیں تھیں پھر بجلی بھی چمکنے لگی تھی اور بادل شاید پہلے برسنے کے لیے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے تھے ان کے اس زورآور ٹکراؤ سے جو آواز ہوتی وہ اتنی شدید گھڑگھڑاہٹ پیدا کر رہی تھی کہ کمزور دل انسان کی تو حرکت قلب ہی رک جائے۔ ایسی ڈراؤنی طوفانی رات، میں وہ اپنے چھوٹے چھوٹے دونوں بچوں کے ساتھ بنگلے نما گھر میں تنہا تھی۔ اس کا شوہر اس کا محافظ اس کا کفیل اور سب سے بڑھ کر اس کا مجازی خدا۔۔۔۔ ۔۔۔۔خدا جو نور کی چادر کے پرے بیٹھا اپنی مخلوق کی حفاظت کرتا اپنی مخلوق کو ہمت دیتاْ اپنی مخلوق سے رحم کا معاملہ کرتا اس کے مسائل سنتا اس کی دعائیں قبول کرتا التجائیں سنتا کرم کرتا اور یہ زمین کا مجازی خدا سفاکیت کا علمبردار محبت سے عاری بے رحمی کی علامت جس کے سامنے ہر التجا بیکار، ہر مسئلہ بے معنی، آج پھر اسے چھوڑ کر اپنے آبائی شہر چلا گیا تھا اپنی خوبصورت رنگین دنیا آباد کرنے۔ ہاں رنگین ہی تو ہے اس کی دنیا جسے اس نے سب سے چھپا کر سجا رکھا ہے ۔

کوئی اس کے دل سے پوچھے کہ آج یہ رات اس پر کیسا قہر ڈھا رہی تھی۔ یہ رات بھی کتنی عجیب ہوتی ہے نا وہ سوچ رہی تھی کبھی کنوارے جذبے جگاتی تب اس کی خوبصورتی کچھ الگ ہی ہوتی پھر مسکراہٹوں بھری اور دھیمی دھیمی سرگوشیوں سے بھری ہوتی تو کتنی حسین لگتی۔ یہی کبھی خوابوں کی دنیا میں لے جا کر پلکوں پر حسین سپنے سجاتی اور پھر وقت کے ساتھ بدل کر بے دردری سے ان سپنوں کو توڑ کر بکھیر بھی دیتی تب کسک اور خلش کے سوا کچھ نہ دیتی۔ کبھی گناہ پر آمادہ کرتی تو کبھی ضمیر کی ملامت بن جاتی۔

ایسی ہی ایک رات آج بھی تھی دہشت والی جس کا ساتھ ہوا دے رہی تھی اور اس کی وحشتوں میں اضافہ کر رہی تھی ۔ ہوا۔۔۔۔۔ ہوا جو کہ زندگی کی علامت سانسوں کو مدھر جھنکار دیتی کبھی پُروا بن جاتی کبھی بادِ صبا بن کر پیغام لاتی، کبھی چاندنی کی خوشبو بکھیرتی تو مد مست کر دیتی اور جب روپ بدلتی تو کتنی سخت ہو جاتی بالکل چنڈالنی کا روپ دھارن کر وناش کرنے پر تُل جاتی، لُو کے تھپیڑے بن جاتی، طوفان کی شکل اختیار کر سب کو فنا کرنے پر آمادہ ہو جاتی، آج بھی تو ایسی ہی ایک گہری رات تھی، کالی سیاہ رات۔ ہوا کے سا تھ مل کر ناگن کی طرح پھُنکار رہی تھی اور عجیب روپ دھارن کر گئی تھی۔ ماضی اسے سترہ سال پرانے سفر پر لے گیا جولائی کا مہینہ، ساون کا مہینہ جب وہ بہت سارے خواب اور نئی خوشنما زندگی کے ارمان لیے ساجن سے ملن کے جذبات کو گدگداتے گیت کے بولوں میں مگن دعاؤں اور قرآن کے سائے میں وہ رخصت ہوئی تھی۔ تمام راستہ بارش ہوتی رہی کتنی سہانی لگ رہی تھی۔ پانی کے قطرے گاڑی کے شیشے سے ٹکراتے اور پھر آپس میں مل کر نیچے کی طرف جاتے ان کے یوں ایک دوسرے میں مدغم ہونے کا عمل اس کی آنکھوں کو بھی کتنے سارے خوبصورت خوابوں سے ہم آغوش کر رہا تھا۔

کار گھر کے بڑے سے آہنی گیٹ میں داخل ہو کر رکی تو خوابوں کا سلسلہ بھی تھما اس کی نند نے بڑے چاؤ اور محبت سے ہاتھ تھام کر اسے اتارا اندر کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ شاٹ سرکٹ کا دھماکہ ہوا اور بجلی گل ہو گئی۔

’’ دلہن کے آتے ہی لائٹ چلی گئی کچھ اچھا نہ ہوا ‘‘ ایک بوڑھی دھیمی سی آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔

’’ ہاں ‘‘ لمبی سی سانس لے کر کسی نے ہاں میں ہاں ملائی۔

’’ اندھیرا اچھا شگون تو نہیں ؟‘‘

’’ شگون کیا ہوتا ہے، اچھے اور برے اعمال تو ہمارے اپنے ہوتے فضول باتیں ہیں، ان پر کبھی دھیان نہیں دینا چاہیے۔ ‘‘ ابو کی بات ذہن میں گونجی اس اندھیرے کو اجلا شگون تو مجھے بنانا ہے ایک عزم اس کے اندر جاگا۔ رات بارہ بجے تک لائٹ آ بھی گئی۔ اسے حجلہ عروسی میں پہنچا دیا گیا کچھ ہی لمحوں میں مجازی خدا کے قدموں کی آہٹ پر وہ مزید سمٹ گئی تھی۔ وہ قریب آئے باتیں کیں۔ بہت اچھی اچھی باتیں خوشگوار زندگی کی باتیں وہ مسکراتی رہی کہ اس کے بُنے خواب سب سچ ہوتے جو دکھائی دے رہے تھے لیکن ان پیاری پیاری مدھر باتوں کے درمیان وہ سچ بھی سامنے آ گیا تھا جس کی اسے بالکل ہی توقع نہیں تھی نہ ہی گمان تھا کہ وہ ان کی پسند نہیں تھی بلکہ والد کی پسند کیا بلکہ ان کی ضد پر اس گھر میں آئی ہے۔ اس کا عزم اب بھی سلامت تھا لیکن اس کا یہ عزم اسے ایک سراب سے ہمکنار کرتا رہا وہ بڑھتی رہی، وہ دور جاتا رہا۔ وہ سراب کو حقیقت میں بدلنے پر مصر تھی مگر وہ تو جنگل میں مرگ ترشنا سا ثابت ہو رہا تھا وہ ادھوری پیاس لیے ایک پھول اور ایک کلی کی ماں بن چکی تھی مگر تشنگی تھی کہ کسی طرح بجھتی ہی نہ تھی کبھی دل کی کلی کھلی ہی نہیں، وہ بھٹکتی رہی چاہت کی چاہے جانے کی آرزو میں، مکمل کسی کے ہو جانے اور کسی کو پا لینے کی خواہش میں اور پھر پا لینے کے بعد کی سرشاری کی کیفیت میں۔

وہ بہت خوش ہوئی تھی اس وقت جب بیٹا ہوا اور اس وقت بھی جب کہ بیٹی ہوئی کہ دنیا مکمل ہو گئی تھی اتنے پیارے خدائی تحفے پا کر۔ اس کے اندر پھر آرزو جاگی تھی کہ اب شاید وہ میرا ہو لیکن وہ بچوں کا باپ تھا نہایت شفیق بے انتہا محبت کرنے والا مگر اب تک وہ اس کا ہو کر بھی اس کا نہیں تھا۔ رات گزرتی جا رہی تھی، ہوائیں اپنا رخ بدل رہی تھیں ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا جس نے کھڑکی کے پٹ کھول دئیے ۔۔۔۔ پردے ہلنے لگے اسی اثناء بجلی بھی چلی گئی اب کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ اندھیرا خوف، باہر ہلکی ہلکی بارش کی آواز جو اب دھیرے دھیرے تیز ہوتی جا رہی تھی، ہوائیں بھی تیز تھیں، اس کی سنسناہٹ رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی تھی، اس کا دل سوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا تھا۔ اس کا دل گبھرانے لگا، دونوں بچوں کی طرف دیکھا دونو ں معصوم محو خواب تھے، بیٹے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی شاید کوئی پیارا سا خواب دیکھنے میں مگن تھا اس بات سے بے خبر کہ ماں پر کیسی وحشتو ں کا عالم طاری ہے، یکایک وہ ہنس پڑا شاید پریاں اسے جھولا جھلا رہی تھیں۔ دادی کہا کرتی تھیں کہ جب بچے نیند میں ہنستے ہیں تو پریاں اور فرشتے انہیں جھولا جھلاتے ہیں، باغوں کی سیر کراتے ہیں۔ وہ ڈر سے سمٹنے لگی۔ بیٹی نے کروٹ لی اور بازو اس کی گردن میں حمائل کر دئیے۔ اس کی پیاری بیٹی اس کی جان اس کے چھوٹے چھوٹے نازک ہاتھوں کا لمس اس کی روح تک کتنا کومل احساس جگاتا تھا۔ بیٹی اس کی بائیں جانب تھی۔ ‘

‘یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے، بیٹی میری بائیں جانب کیوں ہے؟’ وہ پھر لرزنے لگی کسی انہونی کے خوف سے۔ اسے تو دائیں جانب ہونا چاہیے تھا داہنی طرف جس سے نامہ اعمال ملنا تھا تو کیا اس کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں؟ عجیب سے وسوسوں نے اسے گھیر رکھا تھا اس کے دائیں جانب اس کا بیٹا عارش تھا۔ بیٹا مرد۔ مرد کے کتنے روپ۔ جیسے جیسے زندگی اس کے قریب سے گزرتی رہی تجربے ہوشیار کرتے رہے اور ایک کے بعد ایک مرد نما سارے رشتے اپنا اصل اس کے سامنے ظاہر کرتے گئے؛ باپ، بھائی، شوہر اور اب بیٹا۔

باپ، مشفق باپ جس نے بچپن میں بانہوں کا جھولا دیا تھا اور بڑے ہونے پر بھی اسے کئی بار یہ احساس ہوا کہ امی سے زیادہ ابو پیار کرتے ہیں اور کرتے بھی تھے لیکن وہ اسے ڈولی میں بٹھاتے ہی کیسے لاتعلق ہو گئے تھے۔ وہ حیران تھی۔ جب اس نے انہیں اپنی داستان غم سنائی تو دل کو امید سی جاگی تھی کہ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی بیٹی کو بچانے کی کوشش کریں گے جیسے کہ ہمیشہ جب بھی اس سے کوئی غلطی ہوتی اور امی ناراض ہونے لگتیں تب وہ اسے امی کی ڈانٹ سے بچا لیا کرتے تھے اور وہ ان کے پاس آکر محفوظ ہو جایا کرتی تھی اور اب تو اس سے کوئی غلطی بھی سرزد بھی نہ ہوئی تھی اس نے ابو کی طرف بڑی پر امید نظروں سے دیکھا تھا اور پوچھا تھا؛

’’ ابو اب کیا کروں ؟‘‘ اسے یقین تھا کہ ہمیشہ کی طرح ابو اسی کے حق میں فیصلہ دیں گے مگر ان کا سفاک سا جواب اس کی سماعتوں سے گزر کر دل کو پارہ پارہ کر گیا تھا۔

’’ نہ میں نے تمہیں بلایا تھا نہ ہی جانے کے لئے کہوں گا۔ فیصلہ تمہیں خود کرنا ہوگا۔ ‘‘ اور پھر وہ اپنے دل کی کرچی کرچی چُنتی ہوئی اشکوں سے انہیں جوڑتی ہوئی واپس جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بھائی بھی دروازے پر کھڑا مجبور اور لاچار سا ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا مانو اس سے ذیادہ بے کس کوئی اور نہیں۔ اس کی آس بھری نگاہیں اس سے ٹکرائیں اور ندامت لیے لوٹ آئیں اور وہ سینہ تانے خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے لے آیا تھا پھر اسی دنیا میں جہاں سراب ہی سراب تھا۔

کھڑکی کے پاس کھٹ سی آواز ہوئی خیالوں کا تسلسل پھر ٹوٹا دل ڈر اور خوف سے پھر لرزنے لگا۔ اب کیا کروں وحشت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا بچوں کو خود سے اور قریب سینے سے چپکا لیا۔ سرہانے موبائل رکھا تھا سوچا کسی کو فون کروں۔ نہیں میری آواز اس تک چلی جائے گی لیکن کروں بھی تو کس کو اس شہر میں کوئی بھی تو شناسا نہیں۔ کِسے مدد کے لیے بلاؤں؟ ابھی دو ماہ ہی تو ہوئے تھے اس شہر میں آئے ہوئے اور چونکہ اسے پسند نہیں تھا کہ وہ پڑوسیوں سے بھی بات کرے سو وہ کبھی بات کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پائی تھی۔ اسے یاد آیا ۔۔۔۔۔ کتنی مِنتیں کی تھیں، کتنا گڑگڑائی تھی وہ کہ ہمیں یوں اکیلا چھوڑ کر نہ جاؤ۔ٖ ڈر لگتا ہے اور اس نے تضحیک اڑاتے ہوئے جواب دیا تھا؛

’’ کس بات کا ڈر۔۔۔۔ ڈر تم سے ڈر جائے گا ۔‘‘ وہ خاموش رہ گئی تھی اور وہ چلا گیا تھا، غریب رتھ پر سوار ہو کر ‘غریب رتھ’ ٹرین کا نام بھی کیسا تھا سفر سے جڑا ’’ رتھ ‘‘ کیسا خوبصورت لفظ اس سے وابستہ کہانی پھر اس کے ذہن میں گھومنے لگی۔ مہا بھارت جنگ کا منظر، پانچوں پانڈو کورووں سے جنگ کر رہے بھیشم اپنی گدا اٹھائے ودھ پر ودھ کیے جا رہے ارجن رتھ پر سوار اور سارتھی کرشن ارجن کے دل میں انتقام کی آگ ہے پانچالی کے چیر ہرن کی کرشن پانچالی کے بھی رکھوالے تھے اور آج ارجن کے بھی راہنما بن گئے تھے رتھ دوڑ رہا تھا اور کرشن گیان دے رہے تھے؛

’’ دشمن کو کبھی کمزور مت سمجھو بلکہ اس کے کمزور پہلو کو تلاش کر اس پر وار کرو۔ ‘‘ تب ہی دروازے کی کنڈی پر ضرب پڑ نے کی آواز پھر آنے لگی۔ کھٹاک۔۔۔۔ کھٹاک، شاید دروازہ توڑنے کی کوشش تھی بارش بھی تیز ہو گئی تھی، پیڑوں کے پتوں پر پانی کی آواز عجب سی ہیبت پیدا کر رہی تھی۔ دونوں بچوں کو اس نے تقریباً جکڑ رکھا تھا۔ نظریں کھڑکی کے پردے پر جمی ہوئی تھیں ایک ہاتھ اندر کی طرف آیا۔ پردہ سرکا اس کی سانسیں رکنے لگیں۔ اس نے بچوں پر گرفت اور سخت کر لی اور ڈری ہوئی کبوتری کی طرح آنکھیں بند کر لیں پھر دھیرے دھیرے ہلکے سے آنکھ کھولی۔ ایک کالا سا دھندلا چہرہ کھڑکی سے اندر کا جائزہ لے رہا تھا۔ ڈر سے آنکھیں پھر بند کر لیں۔ آیتہ الکرسی کا وِرد ہونٹ بھینچ کر کرنے لگی کہ کہیں ہونٹ ہلتے نہ دیکھ لے پھر ہمت کر کے دوبارہ آنکھ کھولی۔ ہیولا غائب ہو چکا تھا۔ ہلکے سے ٹھنڈی سانس خارج ہوئی اس نے موبائل کی طرف پھر ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔۔ کیا کروں کسے فون کروں نمبر ملایا پھر سارتھی کا جو کہ رتھ پر سوار دور بہت دور جا رہا تھا اپنی منزل کی طرف آج کا کرشن پانچالی کا محافظ نہیں تھا اور نہ ہی پانچالی کی پکار سن پا رہا تھا۔

’’ آپ کا صارف پہنچ سے دور ہے برائے مہربانی کچھ وقت بعد رابطہ قائم کریں۔ ‘‘ لیکن پانچالی تھی کہ آنکھیں بند کیے اسی کا جاپ کئے جا رہی تھی۔ اسی کی تپسیا کو اس نے تو اپنا جیون مان رکھا تھا پھر ‘وھاٹس اپ’ آن کیا۔ سارتھی کو میسیج کرنے لگی۔

’’ باہر کی دروازے پر کوئی ہے‘‘۔۔۔۔۔ ’’ بہت ڈر لگ رہا ہے ‘‘۔۔۔۔ ’’ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں ؟‘‘ کھٹاک کھٹاک آواز میں تیزی تھی۔ جلدی سے اس نے موبائل آف کیا دروازے پر پڑنے والی مسلسل ضرب سے لگ رہا تھا کہ کسی بھی پل کنڈہ ٹوٹ جائے گا پھر کیا ہوگا؟ یا اللہ ۔میرے بچے خوف سے سہمی ہوئی ہرنی شکار ہوجانے سے زیادہ اپنے دونوں قیمتی مشک کی حفاظت کے لیے پریشاں کبھی دروازے کبھی کھڑکی پر نظر، پردہ پھر سرکا، دو آنکھیں سرخ سرخ سی اس کی ڈری سہمی آنکھوں سے ٹکرائیں فوراً آنکھیں بند کر لیں چیخ لبوں سے آزاد ہونے کو ہی تھی کہ اس نے سختی سے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا لیا۔ دانت کی چبھن سے ہونٹ کٹ گئے چہرے پر تکلیف ابھر آئی۔ پھر ہمت کرکے آہستہ سے پلکیں کھولیں ہیولا غائب ہو چکا تھا۔ ضرب تو دروازے پر تھی پھر کھڑکی میں کون تھا اس نے سوچا جو اس کا دل دہلائے جا رہا تھا وہ ہیولا جب بھی نظر آتا ضرب کی آواز کم ہونے لگتیں اور کم ہوتے ہوتے بند ہو جاتیں۔

عجیب حالات جن سے وہ سہر سہر جا رہی تھی پھر اسے خیال آیا کہ یہ رَجب کا مہینہ ہے رحمتوں برکتوں کا مہینہ شب معراج کا مہینہ اس میں تو بلائیں اس کے بندوں کو نہیں ڈراتیں اس کی راتیں تو نورانی ہوتیں۔ یہ تو حبیب اور محبوب کے ملن کا مہینہ۔۔۔۔ دھم کی آواز نے اس کا تسلسل توڑا۔ ہیولا کمرے میں آچکا تھا اور آگے بڑھ رہا تھا۔ یا اللہ یہ میری طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟ یہ تو قریب آتا ہی جا رہا میرے بچے وہ بالکل اس کے قریب تھا ڈر اور خوف سے اس نے آنکھیں میچ لیں۔ لمحے اس پر صدیاں بن کر بیتنے لگے نجانے کتنی دیر وہ ساکت پڑی رہی تب ہی بند آنکھوں میں ایک روشنی کا چھناکہ سا ہوا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں ہیولا تھا نہ ضرب کی آواز تھی۔ تھا تو صرف ایک ادراک جس نے اس کے شعور کو جگا دیا تھا اس کی ذات کا اس رات کا جو نور سے بھری تھی اسے سیراب کر چکی تھی وہ آزاد ہو چکی تھی حصار سے اور صدا آ رہی تھی، اس کے اندر سے کہ ملن کی رات میں ڈر کیسا خوف کیسا وہ سر بسجود ہوگئی۔

تب ہی سارتھی کو کئے گئے وھاٹس اپ میسیجیز کا جواب موصول ہوا؛’’ او۔کے ۔۔۔۔ ٹرین از ٹو آورز لیٹ۔ ‘‘

ڈاکٹر عشرت ناہید، لکھنوٗ، انڈیا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از منیر جعفری