- Advertisement -

فقیروں کی پہاڑی

ایک افسانہ از قرۃ العین حیدر

فقیروں کی پہاڑی

بڑی بڑی آنکھوں والے خوش شکل نوجوان نے گھسی ہوئی بش شرٹ میلی پتلون اور شکستہ جوتے پہن رکھے تھے۔ اس نے ریستوران کے اندر جاکر کائونٹر کے پیچھے بیٹھے ہوئے ایرانی سے کچھ دریافت کیا۔ ایرانی نے انکار میں سرہلادیا تو نوجوان نے خاموشی سے چار مینار کا ایک پیکٹ خریدا اور کچے برآمدے کی ایک بنچ پر بیٹھ کر سامنے کی رونق دیکھنے لگا___ برآمدہ دراصل ایک بڑا سا چھپر تھا، لیکن اندر پختہ ہال کی دیواروں پر سبز رنگ کے ٹائل لگے تھے اور ایک بڑے سے آئینے پر ایک بے حد بھدی اور بھیانک ’’سینری‘‘ پینٹ کی گئی تھی___ سنگ مرمر کی گندی میزوں پر زائرین ناشتہ کرنے میں مصروف تھے اور ایک کونے میں ’’بوائے‘‘ ایک گندے پانی کی بالٹی میں پلیٹیں ڈبو ڈبو کر نکال رہا تھا۔ چھپر کے باہر پہاڑی کے دامن میں موٹریں، لاریاں اور ڈانڈیاں کھڑی تھیں۔

سرخ مٹی کے کچے راستے پر بگولے اڑ رہے تھے اور سامنے پہاڑی کی تین مہیب چوٹیاں دھوپ میں چمکنے لگی تھیں۔ اس وقت صبح کے نوبجے تھے۔ نوجوان کی نظریں منظر کا جائزہ لیتے لیتے مس موہنی بالا پر جارکیں جو اپنی طویل کار سے اتر کو ڈانڈی میں سوار ہورہی تھی۔ اس کی فربہ ’’ممی‘‘ نے ٹفن باسکٹ اٹھا رکھی تھی۔ دوسری ڈانڈیوں میں بوڑھے پارسی اور بیمار یاتری سوار ہورہے تھے۔ بیش تر زائرین جوق در جوق پہاڑ کی سیڑھیاں چڑھنے میں مصروف تھے۔ لاریوں کے اڈے اور پہاڑی کے درمیان ایک جھیل سی تھی جس میں پتھروں کی پگڈنڈی بنی تھی___ ایک بے حد دراز قد کا ’’زنانہ‘‘ سرخ بال کندھے پر جھٹکائے پگڈنڈی کے وسط میں کھڑا تھا۔ مس موہنی بالا کی ڈانڈی جب اس کے پاس سے گذری تو اس نے ہاتھ مٹکاکر کہا___ ’’مرادپوری ہونے پر پورے سو روپے لوںگی‘‘ موہنی بالا سہم کر اپنی جاپانی چھتری کی اوٹ میں چھپ گئی___ نوجوان سگریٹ پھینک کر چھپر سے نکلا اور ڈانڈی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا___پہاڑی کے نیچے سیمنٹ کا نیا راستہ بن رہا تھا۔ درگاہ کے برہمن مجاور پھاٹک کے پاس کرسی پر بیٹھے زائرین کو انگریزی کا پمفلٹ دیتے جارہے تھے جس میں سڑک پکی بنانے کے لیے عطیوں کی درخواست کی گئی تھی۔ نوجوان نے پھاٹک میں داخل ہوکر سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کیا۔ یہاں سے پہاڑی کے گھنے جنگل میں بنی ہوئی فقیروں کی صاف ستھری جھونپڑیاں شروع ہوتی تھیں جن کے سامنے مقدس تصاویر، مالائیں اور تسبیحیں بک رہی تھیں۔ ایک فقیر نے ایک تین سالہ بچے کو شیو مہاراج کے بھیس میں ایک چٹان پر بٹھا رکھا تھا۔ بچہ بڑے صبر سے چپ چاپ بیٹھاتھا۔ سیڑھیوں کے دونوں جانب ان گنت کوڑھی صدائیں لگارہے تھے۔ جھونپڑیوں کے محتصر برآمدوں میں کاسے رکھے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ کالج میں پڑھتا تھا اور سوچا کرتا تھا کہ ہیرو بنے گا اور مس موہنی بالا کا لیڈنگ مین (Leading Man) کہلائے گا۔ یہ بچکانہ خواب تو خیر بہت جلد ٹوٹ گیا مگر آج، اس وقت مس موہنی بالا کا بے ضرر سا تعاقب کرنے میں کیاحرج تھا؟ لہذا وہ ڈانڈی کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ کوڑھیوں کی اس افراط کے علاوہ جو وطن عزیز کے دو بڑے فرقوں، ہندو اور مسلمان سے تعلق رکھنے کا فخر رکھتے تھے، پہاڑی پر ہر وضع کا اپاہج موجود تھا۔

اندھے، لنگڑے، لولے، لنجے اور ایسے بھکاری اور بھکارنیں جن کے محض دھڑ ہی سا لم تھے۔ چٹانوں پر آڑے ترچھے لیٹے صدائیں لگا رہے تھے۔ لمبے چوغے والے آنکھوں میں سرمہ لگائے، ہزار دانہ تسبیح پھراتے، قلندر، مجذوب، بھنگ کے نشے میں مگن سادھو___ فقیروں کی یہ عظیم الشان ’’کامن ویلتھ‘‘ یقینا لرزہ خیز اور حیرت انگریز تھی۔ یاتریوں کی قطاروں میں سندھی تاجر اور جارجٹ نائون کی ساڑھیوں میں ملبوس ان کی خواتین، ٹرانز سسٹر سنبھالے بانکے، چھیلے لڑکے، بوہرے، خوجے، پارسی، گجراتی، مرہٹے، پنجابی، ہندو اور مسلمان سب ہی رواں دواں ہانپتے کانپتے، بھکاریوں کے سامنے سکے پھینکتے، چوٹی کی طرف چڑھنے میں منہمک تھے۔ اوپر جاکر جنگل گھنا ہوگیا۔ ایک ریستوراں میں چند منٹ سستا کر نوجوان پھر آگے بڑھا۔ ہر کٹھن چڑھائی کے بعد صاف ستھرے چائے خانوں میں زائرین کے گروہ چائے اور شربت سے تازہ دم ہونے میں مصروف تھے۔ نیچے گہری گھاٹیاں تھیں، اور لق ودق میدان، کھیت۔ بہت دور عظیم الشان شہر تھا، اور سمندر،اور ساری دنیا۔ موہنی بالا کی ڈانڈی اب نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی۔ ایک ریستوراں میں قوالی ہورہی تھی۔ چاروں طرف درختوں میں چاند تارے والے ہرے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ نیچے ایک جھرنا گررہا تھا۔ ایک کوڑھی چٹان پر لیٹا اپنے زخمی ہاتھوں سے روٹی کھانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ نوجوان چڑھائی کرتا رہا۔ اچانک ایک بھیانک آواز اس کے کانوں میں آئی ’’بڑے بڑے سیٹھ آئے___ ہو___ بڑے بڑے صاحب آئے___ ہو___ بڑے بڑے دھنی آئے___ ہو___‘‘ یہ صدا چٹانوں سے ٹکراتی اور گونجتی اوپر بہت دور سے آرہی تھی۔ اور اس کی یکسانیت ہولناک تھی۔ نوجوان نے متحیر ہوکر اسے سنا اور پھر آگے بڑھا۔ بہت سے موڑوں سے گزرنے کے بعد اس آواز کا سرچشمہ اچانک اس کے سامنے آگیا___ وہ ایک بے حد لمبا فقیر تھا، جو شاید اپنی پلکیں بھی نہیں جھپکاتا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا گویا کسی قدیم مصری ممی کو سیدھا کھڑا کر کے اس میں کوک بھر دی گئی ہو اور وہ ممی بے تکان رٹنے جارہی ہو: ’’ بڑے بڑے سیٹھ آئے ہو ___ بڑے بڑے ___‘‘ اس نے گیروا چوغہ پہن رکھا تھا اور ایک اونچی خطرناک اور تنہا چٹان پر ڈنڈا سنبھالے اس طرح کھڑا تھا جیسے زائرین کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے اس کا پیغامبر ہو۔

یاتریوں کا جلوس چٹان کے نیچے سے گزر رہا تھا۔ لمبے فقیر نے چند غریب یاتریوں کو نگاہِ غلط انداز سے دیکھا اور آسمان کی طرف منہ اٹھائے اپنی رٹ میں مصروف رہا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ ایک ہائی کلاس اورنک چڑھا فقیر تھا اور ایک منفرد تکنیک اور شخصیت کا مالک ہونے کی وجہ سے ہما شما کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ پہاڑی کا راستہ ابھی آدھا طے ہوا تھا۔ ذرا اوپر جاکر نوجوان کو چند خوش باش بچّیاں نظر آئیں جو سیڑھیوں کے کنارے کھیل کود میں مشغول تھیں۔ ’’ اری کم بختو، کام کا وقت آگیا ___ ‘‘ ان کی ماں نے جو دوسری چٹان کے نیچے کاسہ لیے بیٹھی تھی ۔ زور سے انہیں ڈانٹا___ لڑکیوں نے فوراً ہنسنا بند کر کے ایک درخت کے پیچھے سے چٹائی کا ٹکڑا اور ٹین کے خالی ڈبّے نکالے اور چٹائی کنارے پربچھا کر ہاتھ پھیلا دیئے___ نوجوان کو یہ منظر دیکھ کر بے اختیار ہنسی آگئی___ بچّیوں کی چودہ پندرہ سالہ بڑی بہن نوجوان کو ہنستا دیکھ کر برامان گئی اور ہونٹ نکال کر بسورنے لگی۔ نوجوان نے دس پیسے اس کے سامنے پھینکے اور سوچ میں ڈوبا آگے بڑھ گیا___ اگلے ریستوراں میں پہنچ کر اس نے لیموینڈ کی ایک بوتل خریدی اور چھوکرے سے کہا کہ اسے نیچے لڑکی کودے آئے___ پھر وہ اور آگے بڑھا___ راستے کی ڈھال پر ایک جھونپڑی نظر آرہی تھی___ نوجوان اس کے نزدیک ایک پتھر پر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔ جھونپڑی میں ابھی صبح ہوئی تھی خاتون خانہ چائے کے برتن دھو رہی تھیں۔ اس کام سے فارع ہوکر انہوں نے ایک ٹرنک میں سے ایک چیتھڑا ساری نکالی۔ اپنی ثابت ساری اتار کر گوڈر زیب تن کیا اور ایک رکابی میں سے بکری کا خون انگلیوں پر لے کر چہرے اور بانہوں پر زخموں کے نشان بنائے اس دوران میں صاحب خانہ اپنے پیروں پر گندی پٹیاں باندھ چکے تھے پھر شہتیر میں سے بیساکھی اتا کر انہوں نے اپنے نو نہالوں کو آواز دی : ’’ منگو ___ چھٹکو___ شبراتی___ ارے شبراتی بے غیرت کہاں ہے؟ ‘‘ ایک دس سالہ لڑکا منہ پھلائے جھونپڑے کے پچھواڑے بیٹھا گٹکے کھیل رہا تھا۔ ’’ ابے آج کیا دھندے پر نہیں جانا؟ ‘‘ والد نے گرج کر پوچھا۔ ’’ اباّ ___ابا___ یہ شبراتی کا بچہ کہتا ہے کہ آج سے بھیک نہیں مانگے گا۔ اسکول میں پڑھے گا اورکام کرے گا___‘‘ بڑے لڑکے نے اندر سے آواز لگائی۔ والد نے باہر آکر شبراتی کے ایک تھپڑ رسید کیا ’’ سالے موالی___ کبھی تیرے باپ دادا نے بھی کام کیا تھا جو تو کرے گا ناک کٹائے گا؟ بدمعاش! ‘‘ ایک اور تھپڑ پڑا تو بچے نے منہ پھاڑ کر رونا شروع کیا۔ متحیر نوجوان کو جھاڑی میں سے جھانکتا دیکھ کر اچانک والدہ دہاڑیں: ’’ ارے کون ہے رے؟ ‘‘ ’’ کچھ نہیں بڑی بی ___ ذرا سستا رہا تھا۔‘‘ نوجوان نے گھبرا کر جواب دیا۔ ’’ بڑی بی ! ارے بڑی بی ہوگی تیری ہوتی سوتی___ جوانا مرگ میں تجھے بڑی بی سجھائی دیتی ہوں؟ صُبو صُبو آکر پرائی بہو بیٹیوں کو تاکتا ہے۔ انگار لگے تجھے ___‘‘ ’’ اری نیک بخت، چپ ہو جا اب ‘‘۔ معقولیت پسند صاحب خانہ نے بیوی کو سمجھایا اور مصنوعی طور پر کراہتے ہوئے باہر نکالے۔

نوجوان لپک کر پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھ گیا۔ اب گہما گہمی بہت بڑھ گئی تھی۔ روضہ بالآخر قریب آچکا تھا۔ چائے خانوں میں بے حد رونق تھی۔پھولوں اور ہاروںکی دوکانیں خوشبو سے مہک رہی تھیں۔بڑی بڑی دوکانیں دیوی دیوتاؤں، مکّے مدینے اور اس درگاہ کی رنگین تصاویر، دیگر تبرکات اور اگربتیوں کے رنگین پیکٹوں سے جگمگا رہی تھیں۔ گلیوں میں تازہ چھڑکاؤ کیا گیا تھا۔ لنگر تقسیم ہونے والا تھا۔ فوجی جوانوں کی ایک ٹولی ’’ حاجی بابا کی جے ‘‘ کے نعرے لگاتی روضے کے صحن سے برآمد ہوئی اور مارچ کرتی نیچے اتر گئی دوسری طرف سے اسکول کے بچوں کا ایک گروہ آرہا تھا۔ ان کے ماسٹر دھوتی باندھے، ماتھے پر تلک لگائے ’’ حاجی بابا کی جے ‘‘ بولتے اوپر چڑھنے لگے۔ مزار کے صحن میں بھیڑ لگی تھی۔ عود لوبان سے بوجھل اس فضا میں برہمن مجاور کی لڑکیاں نوگزی مرہٹی ساڑیاں پہنے روضے کی کنجیاں سنبھالے ایک نقشین دروازے سے نکل کر دوسرے دروازے میں داخل ہوگئیں۔ نوجوان جو خود کو ملحد سمجھتا تھا، صحن سے نکل روضے کے عقب میں جانکلا، جہاں گھنے درختوں کی چھاؤں میں چند اور مزار موجود تھے اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پہاڑی کے پچھلے ڈھال پر درختوں کے کنج میں چھپی ہوئی کٹیوں میں مسلمان بزرگ اور ہندو یوگی خاموشی اور گم نامی کے عالم میں عبادت اور مراقبے میں مصروف تھے۔ نوجوان کو جھرجھری سی آئی۔ ایک دنیا یہ بھی ہے ___ اس نے سوچا۔ ’’ تم چوٹی پر پہنچ کر بہت حیران نظر آتے ہو!‘‘ کسی نے اسے مخاطب کیا۔ اس نے چونک کر نظریں اٹھائیں ۔ نورانی چہرے اور سفید داڑھی والے ایک بزرگ ایک کٹیاسے نکل کر پہاڑی چشمے کی طرف جاتے ہوئے اس کے سامنے ٹھٹھک گئے تھے۔ ان کے پس منظر میں ایک مہیب چٹان ایستادہ تھی۔ ’’ جی ___ جی نہیں تو ___ ‘‘ نوجوان نے ذرا جھینپ کر کہا ’’ مگر یہ پہاڑ خاصا حیرت انگریز ہے۔‘‘ دنیا کی کون سی چیز حیرت انگریز نہیں ___ زندگی، موت، دکھ ، سکھ، عورت، مرد ، ہر شے پر اسرار ہے۔ اور کوچ کا نقارہ دن رات بج رہا ہے۔‘‘ ’’ پھر کرنا کیا چاہئے ؟ ‘‘ ’’ بے تعلقی___‘‘ نوجوان نے ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اور اس کی ویران زندگی سراب کے ریلے کے مانند اس کے سامنے سے گزر گئی۔ وہ کالج سے نکل کر کلرک بھی نہیں بن سکا تھا۔ اور اس کی بچپن کی محبوبہ، کانتا دیوی کے نام سے مشہور ہیروئن بن چکی تھی۔ وہ اپنا قصبہ چھوڑ کر اس کے پیچھے اس شہر تک آیا تھا۔ مگر کانتا اب اسے پہچاننے سے منکر تھی۔ ہانپتی کانپتی وہ شہرت اور کامیابی کے پہاڑ کی اس چوٹی پر پہنچ چکی تھی جہاں موہنی بالا پہلے سے براج مان تھی۔ ماضی کی وہ سیدھی سادی بھولی لڑکی جواب کانتا دیوی کہلاتی تھی۔ اس کے شب و روز آج کل محض موہنی بالا کو نیچا دکھانے کی فکر میں گزر رہے تھے۔ موہنی بالا کی ممی اور مس کانتا دیوی کی ممی دونوں وقتاً فوقتاً پریس کو ایک نہ ایک بیان دیتی رہتی تھیں۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں تو بزرگ عصا ٹیکتے چشمے کی طرف چل پڑے تھے۔ ’’ سب دل کے بہلاوے اور پریوں کی کہانیاں ہیں___‘‘ نوجوان نے ذرا تلخی سے انہیں آواز دی۔ ’’ کیا ___ ؟ ‘‘ انہوں نے ٹھٹھک کر دریافت کیا۔ ’’ یہی سب ___ یہ درگاہ، اور یہ سارا چکّر۔ بے تعلقی کا فلسفہ بھی میرے لیے اتنا ہی بے معنیٰ ہے جتنی یہ روایت کہ یہ پہاڑ حاجی بابا کے ایک نعرے سے تین حصہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ بزرگ نرمی سے مسکرانے لگے۔ نوجوان کواحساس ہوا کہ وہ ان کے ساتھ بے ادبی سے پیش آیا ہے ۔ آخر بوڑھے آدمی تھے۔ لہٰذا ان کا دل رکھنے کے لیے اس نے کہا وہ سامنے والی چوٹی کیسی ہے؟ بڑی عجیب سی شکل کی چٹان ہے جیسے دیونی بیٹھی ہو___‘‘ ’’ یہ چٹان بھی‘‘ بزرگ نے کنج کی طرف بڑھتے ہوئے جواب دیا۔’’ پہلے ایک عورت تھی۔‘‘ پھر وہ درختوں میں غائب ہوگئے ___ نوجوان گہری سانس لے کر پھر پہاڑی کے بارونق حصے کی طرف مڑا۔ اب ایک شخص نے جسے نوجوان مجاور سمجھا اس کا پیچھا کیا۔ ’’ آپ یہاں کے مجاور ہیں؟ مگر افسوس ہے کہ میرے پاس نذر دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘ نوجوان نے کہا۔ ’’ مجاور میں نہیں ہوں صاحب۔ اگلے وقتوں کے برہمن راجہ کی اولاد یہاں کی مجاور ہے___ ماچس ہوگی___ ؟ ‘‘ نوجوان نے سگریٹ کا سارا پیکٹ اسے تھما دیا۔ ’’ صاحب ___ ‘‘ اس آدمی نے نوجوان کو ذرا غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ ’’ اگر بھوک لگی ہو تو چل کر لنگر میں کھا لیجئے___ میں بھی ادھر ہی جارہا ہوں۔‘‘ ’’ آپ بڑے پریشان سے نظر آرہے ہیں۔‘‘ اجنبی نے ڈھٹائی سے کہا۔ نوجوان نے غیر ارادی طور پر اپنی پتلون کی جیب پر ہاتھ پھیر مگر فاؤنٹن پن ابھی موجود تھا۔ ’’ کبھی صندل کے موقعے پر آئیے ___ ‘‘ اجنبی کہتا رہا۔ شاید نوجوان نے اسے غلط سمجھا تھا___‘‘ بابا کی پالکی سارے پہاڑ کا گشت لگاتی ہے۔ بڑی زبردست آتش بازی ہوتی ہے، رات کو شیر ببر آتا ہے ہندو مسلمان بڑی عقیدت سے حاضری دیتے ہیں___‘‘ ’’ یہی ہندو مسلمان شہر واپس جاکر جب بلوہ ہوتا ہے تو ایک دوسرے کو چھرا بھی مارتے ہیں___‘‘ نوجوان نے اکتا کر کہا اور جلدی سے واپس مڑ گیا۔ اجنبی سر ہلا کر آگے بڑھا اور ایک موٹی سیٹھانی کے تعاقب میں مصروف ہوگیا۔ ’’ جانے کون تھا یہ شخص ۔ میری طرح بے کار، آوارہ، بے مقصد___ کیا عجیب جگہ ہے یہ فقیروں کی پہاڑی___ کمال ہے ___ ‘‘ نوجوان نے سوچا۔ پہاڑی سے اترتے وقت مصری ممی یعنی لمبے فقیر کی آواز اسی طرح سنائی دی۔ راستے پر پڑتا ہوا اس کا سایہ ڈوبتے سورج کی روشنی میں اب بے حد طویل اور لرزہ خیر معلوم ہو رہا تھا۔ دوسرے فقیروں کی چادروں پر سکّوں کی ڈھیریاں بن چکی تھیں۔ یا تری تھکے ہارے، بیمار اضطراب آسودہ، صحت مند، مسرور، پر امید اور جذبۂ عقیدت سے سرشار اب قطار اندر قطار واپس اتر رہے تھے۔ نوجوان جواب بہت زیادہ تھک چکا تھا، نشیب میں پہنچ کر ایک مختصرسی خاصی آرٹسٹک جھونپڑی کے برآمدے میںٹک گیا۔ جس کے کنارے پر کاسہ بڑی نفاست سے رکھا ہوا تھا۔ سرمگیں آنکھوں اور سرخ داڑھی والے ایک بڑے میاں کشکول کے پیچھے بیٹھے تھے۔ انہوں نے لیمن ڈراپس، بتاشوں اور چنوں کا ایک بہت ہی مختصر سا خوانچہ بھی لگا رکھا تھا۔ ایک سفید صاف ستھری تولیہ کھونٹی سے ٹنگی تھی۔ اندر سے ایک جوان عورت ساڑی سے سر ڈھانپے برآمدے میں آئی اور کاسے کے پیچھے گویا اپنے آفس ڈیسک پر بیٹھ گئی۔ اندر تیل کے اسٹوو پر کیتلی چڑھی ہوئی تھی۔

’’ آپ یہاں کب سے ہیں‘‘۔ نوجوان نے دو آنے کے چنے خریتے ہوئے دوستانہ لہجے میں سرخ داڑھی والے سے دریافت کیا۔ ’’ بیس سال ہوگئے۔‘‘ ’’ آمدنی اچھی ہوجاتی ہے؟ میرا مطلب ہے آپ کی اس دوکان سے ۔‘‘ ’’ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے مگر اللہ کا شکر ہے ‘‘ نوجوان پر شک بھری نظر ڈال کر انہوں نے جواب دیا۔ ’’ انگار لگے اس آمدنی کو ___ ‘‘ جوان عورت بڑ بڑائی۔ سرخ داڑھی والے نے مسکرا کر عورت کو دیکھا‘‘ یہ میری دوسری زوجہ ہیں۔ یہاں ان کا دل گھبراتا ہے۔ کہتی ہیں شہر میں چل کر رہو۔‘‘ ’’برسات میں یہاں مشکل پڑتی ہوگی___‘‘ نوجوان نے اظہار خیال کیا۔ ’’ جی ہاں۔ برسات میں زائرین بھی نہیں آتے۔ اور سانپ بچھو بھی بہت ہوتے ہیں۔ میری جوان بیاہی لڑکی کا انتقال ہوگیا پچھلے سال۔ تب سے میرا دل بھی یہاں سے اچاٹ ہوگیا ہے۔ مرحومہ سامنے والی جھونپڑی میں رہتی تھی۔ اس کا شوہر بھی یہاں کا فقیر تھا میں نے بیاہ کر رخصت کیا بھی تو اس طرح کہ نظروں کے سامنے رہے ۔ کلیجے میں ٹھنڈک رہے___‘‘ ایک بچّہ اپنی نشانی چھوڑا غریب نے۔ ‘‘ انہوں نے ایک چھنگلیا سے پلکیں خشک کیں۔ گھنے اندھیرے درختوں میں بسیرا لینے والے پرندوں نے چہچہانا شروع کردیا تھا۔ نوجوان بہت متاثر ہو۔ شاید مدتوں سے کسی نے اس طرح بیٹھ کر اس بوڑھے شخص سے اس کا دکھ درد نہیں سنا تھا۔ ’’ ارے___ محمد اکرم ___ ‘‘ بوڑھے نے آواز دی۔ پھر نوجوان سے کہا ’’ میری بچّی کا شوہر ___ جی ہاں ___ وہ بھی ___ یہی کام کرتا ہے۔‘‘ سامنے کی جھونپڑی سے گیروا کرتا پہنے، تسبیح پھراتا اور ذرا لنگڑا کر چلتا ہوا ایک جوان اور بے حد صحت مند فقیر قریب آیا۔ اس نے بھی نوجوان کو شبہ کی نظروں سے دیکھا۔ مہندی رچی داڑھی والے بڑے میاں نے بیوی کو اشارہ کیا۔ وہ اندر سے چائے بنا کر لائی اور ایک پیالی نوجوان کو پیش کی۔ ایک قبول صورت لڑکی چار سالہ بچہّ گود میں اٹھائے درختوں میں سے نمودار ہوئی۔ اور سرخ پٹّوں والے کو مخاطب کیا۔ ’’ لو سنبھالو اپنے نواسے کو ماموں۔ میں روٹی پکانے جارہی ہوں۔ مبارک ہو آج نواسے نے تین روپے کمائے ہیں۔‘‘ لڑکی نے بچے کو سائبان میں ٹکا کر بڑے سلیقے سے ڈیڑھ روپے کی ریزگاری ماموں کے حوالے کی اور ڈیڑھ روپیہ ساڑی کے آنچل میں باندھ کر اٹھلاتی ہوئی نیچے اتر گئی۔ ’’سارا کنبہ یہیں ہے ماشاء اللہ ؟ ‘‘ نوجوان نے ذرا رشک سے پوچھا۔ ’’ جی ہاں___‘‘ یہ میری بھانجی تھی۔ بڑی سگھڑ بچی ہے۔ میری ہمشیرہ اور بہنوئی وہ نیچے والی جھونپڑی میں رہتے ہیں___ بہنوئی ___ نابینا ہیں۔‘‘ نوجوان اٹھ کھڑا ہوا، اور اس مہربان اور ہنر مند کنبے کو خدا حافظ کہہ کر اور نیچے اترا۔ سورج کی نرم اور ترچھی کرنوں نے ڈالیوں میں سے چھن چھن کر ماحول کو دفعتاً زیادہ پر اسرار بنا دیا تھا۔ فقیر اپنے مقررہ ٹھکانوں سے اٹھ رہے تھے۔ چٹائیاں لپیٹی جارہی تھیں۔ کوڑھی اور اپاہج اسی طرح پڑے تھے۔ اتنے میں ایک مرہٹی عورت اودا کاشٹہ باندھے، کیک بسکٹ کا بکس سر پر اٹھائے تیز تیز قدم رکھتی پگڈنڈیوں پر نمودار ہوئی ہر بھکاری کے سامنے جاکر اس نے بکس اتارا۔ بھکاریوں نے خاموشی کے ساتھ اس سے سستی خشک ڈبل روٹیاں اور بسکٹ خریدے۔ عورت نے ان سے پیسے لیے اور دوسرے فقیروں کی طرف چلی گئی۔ چنانچہ سبھی فقیر خوش حال نہیں تھے۔ بیش تر اپاہج آسمان کے نیچے لیٹے خشک باسی ڈبل روٹی پر گزر رہے تھے۔ نوجوان آخری سیڑھیاں پھلانگتا نیچے پہنچا، ایک بار پلٹ کر اس نے پہاڑی پر نظر ڈالی اور باہر نکلا۔ جھیل کے پرے، سرخ بالوں والا زنانہ ایک بنچ پر چپ چاپ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ موٹریں اور لاریاں روانہ ہو رہی تھیں۔ (موہنی بالا بھی کب کی غائب ہوچکی تھی) کل صبح تک کے لیے پہاڑی خاموشی اور اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔ نوجوان نے پنواڑی کی دوکان سے دس پیسے کا اِن لینڈ لیٹر خریدا اور ریستوراں کے بڑے چھپّر میں پہنچ کر بنچ پر بیٹھ گیا اور خط لکھنا شروع کیا۔ والدہ صاحبہ ، تسلیم مجھے اطلاع ملی تھی کہ یہاں ایک ریستوراں میں کیشیر کی جگہ خالی ہے، لیکن صبح جب میں یہاں پہنچا تو معلوم ہوا وہ جگہ بھر چکی ہے۔ بہر حال آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس شہر میں تین سال بے کار رہنے اور دھکّے کھانے کے بعد آج بالآخر ایک نہایت اچھا کارو بار میری سمجھ میں آگیا ہے۔ بہت آرام دہ کام ہے، اور آمدنی بھی امید ہے معقول ہوگی۔ قیام و طعام کا انتظام مناسب اور فضا بارونق ہے۔ میرے رفیقِ کار ، ہنر مند، اہل فن بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سچّے فن کار ہیں۔ اپنا پتہ آیندہ خط میںلکھوں گا۔ آپ کا تابعدار بیٹا چند روز بعد ’’ مصری ممی‘‘ نے بڑے غصے سے دیکھا کہ مقابل کی چٹان ایک سیاہ داڑھی مونچھ اور پٹّوں والے با رعب فقیر کا مسکن بن چکی ہے جو لمبا کرتا اور سفید کنٹوپ پہنے تسبیح ہزار دانہ پھیرتے ہوئے گرج دار آواز میں مجذوبانہ نعرے لگا رہے ہیں اور ریزگاری کا ڈھیر ان کے قدموں میں لگ چکا ہے۔

جب سیٹھوں کی ٹولی سامنے سے گذرتی ہے تو وہ دلدوز آواز میں: زر کی جو محبت تجھے پڑ جائے گی بابا دکھ اس میں تری روح بہت پائے گی بابا پڑھتے ہیں۔ عوام کے لیے ؎ دنیا کے امیروں میں یاں کس کا رہا ڈنکا نت بھنگ پی اور عاشق دن رات بجا ڈنکا موجود ہے۔ اپٹو ڈیٹ یاتریوں کے سامنے بے نقط کی اڑنگ بڑنگ انگریزی اڑانا شروع کردیتے ہیں اور دفعتاً جب جذب طاری ہوتا ہے تو نعرہ لگاتے ہیں: ’’ سب بکواس، کھالے گھاس، کردوں تیرا ستیاناس۔ پلادوں جوتے کا مکسچر ___ بولو کون بھوانی ___‘‘ نوچندی جمعرات کو جب مس کانتا دیوی چادر چڑھانے کے لیے درگاہ جاتے ہوئے سامنے سے گزریں تو شاہ صاحب ڈنڈا ہوا میں لہرا کر حسب عادت چلائے ۔ ’’ بولو کون بھوانی‘‘ ___ کانتا نے دہل کر سر اٹھایا اور اوپر اونچی چٹان پر کھڑے شاہ صاحب کو دیکھا۔ شاہ صاحب فرماتے رہے ، ‘‘ ایمان پاک۔ آدمی بے باک ___ حق اللہ۔ پاک ذات اللہ ___‘‘ کانتا دیوی ایک کمزور دل خاتون تھیں۔ ذرا سہم کر آگے بڑھنے لگیں تو شاہ صاحب گرجے: ’’ احدہما الابتلا بافراط خاصۃ من الشراب ___ ہمارے فرخ آباد میں دو گھوڑے رہتے تھے۔‘‘ کانتا دیوی لرز کر ٹھٹھک گئیں۔ ان کے سوا کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی ممی کسی زمانے میں فرخ آباد کی رنگریزن تھیں۔ کانتا دیوی سر ڈھانپ کر اور ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئیں۔ اب شاہ صاحب پر حال آچکا تھا اور وہ جھوم جھوم کر قوالی کا ایک مصرع دہرا رہے تھے___ ؎ اخلاص کے رنگ میں رنگ دے پکّا لال رے رنگریجوا کانتا دیوی مبہوت ہو کر انہیں دیکھتی رہیں۔ شاہ صاحب نے ان کی طرف سے بے پرواہ ہو کر اپنی بڑہانکنی شروع کی۔ ’’ دریا کی لہر ___ اللہ کا قہر ___ ہنڈیا میں چڑھا ___ جوتے کا مکسچر پلا___‘‘ مس کانتا دیوی کی آنکھیں بھر آئیں۔ ان کا سب سے بڑا پروڈیوسر جو ہر وقت ان کی خوشامد میں لگا رہتا تھا۔ ان دنوں ایک بہت ’’ بڑی‘‘ پکچر کے لیے مس موہنی بالا سے کنٹریکٹ کرچکا تھا۔ شاہ صاحب نے سریلی آواز میں یک لخت گانا شروع کردیا۔ ہمارے شمس آباد میں دو گھوڑے رہتے تھے ڈبکو ڈبکو می کند، از یک توجہ پار کن سمجھنے والے کے لیے مجذوب کا اشارہ کافی ہے۔ مس کانتا دیوی سر جھکا کر کھڑی ہوگئیں۔ تب شاہ صاحب نے آنکھیں کھول کر نعرہ لگایا۔ ’’ مچھلی بیچے گی___‘‘ ’’ حضور، میرے لیے کوئی حکم ___؟ ‘‘ کانتا دیوی نے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائے بغیر پوچھا۔ ’’ مچھلی بیچے گی۔ شاہ صاحب نے دہرایا۔ ’’ کون حضور___؟‘‘ ’’ وہی ___ اور کون ___ ‘‘ کانتا دیوی نے جلدی سے ان کے پاؤں چھونا چاہے۔ مگر انہوں نے پیچھے ہٹ کر کہا۔ ’’دھت ___ بھگ جا عورتیا ___‘‘ ’’ شاہ صاحب___‘‘ ’’ پیر ہٹیلے کا مرغا ___ ‘‘ ’’ جی شاہ صاحب؟ ‘‘ ’’ پیر ہٹیلے کا مرغا ___ ‘‘ کانتا دیوی ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گئیں۔ مگر فوراً ہی انہیں یاد آگیا کہ فرخ آباد میں ان کے محلے کی عورتوں کے ہاں بارہ مہینے نذر و نیاز کا سلسلہ رہتا تھا___ شیخ سدّو کا بکرا ___ پیر دین دار کا کونڈا ___ مشکل کشا کا دونہ ___ شہید کا لمیدہ ___ حضرت عباّس ؑ کی حاضری___ بی بی کی پڑیا___ پریوں کا طبق___ پیر ہٹیلے کا مرغا ___ کانتا دیوی کی ممی لطیفن بوا بھی ایک زمانے میں مسجد کے طاق بھرا کرتی تھیں۔ یوروپ کی سیاحت اور فلمی مصروفیات سے بھرپور موجودہ زندگی میں مس کانتا دیوی کو یہ سب کہاں یاد رہ سکتا تھا___ مگر شکر کہ اس وقت یاد آگیا۔ انہوں نے فوراً سو روپے کا نوٹ نکال کر شاہ صاحب کے قدموں میں رکھا___ ’’بھاگ جا عورتیا___ دھت۔ ہٹ ہٹ ہٹ ___‘‘ شاہ صاحب نے آنکھ بند کر کے ڈانٹ بتائی۔ مس کانتا دیوی نے ادب سے ان کو تسلیم کی اور خوش خوش آگے چلی گئیں۔ شاہ صاحب نے اپنے فرغل کی جیب میں سے وہ نوٹ بک نکالی جس میں انہوں نے اپنی والدہ کو خط لکھ کر سارے پیروں کی نذر و نیاز کی تاریخیں منگوا کے درج کر لی تھیں___ شاہ صاحب نے نوٹ بک کے ایک کالم میں ایک نشان بنایا اور پاؤں کے انگوٹھے کے ذریعے نوٹ گدڑی کے نیچے سر کانے کے بعد بھجن گانے میں مصروف ہوگئے۔ مار واڑیوں کی ایک ٹولی پہاڑی کی سیڑھیاں طے کرتی اوپر آرہی تھی۔

قرۃ العین حیدر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از قرۃ العین حیدر