میں جس کو بھی سہارا کر رہا تھا
وہی مجھ سے کنارا کر رہا تھا
سفر بے سمت تھا در پیش مجھ کو
میں آنسو کو ستارہ کر رہا تھا
ہوا جس کے لیے جنت بدر میں
وہی خواہش دوبارہ کر رہا تھا
اسے مجھ سے کوئی مطلب تھا شاید
مری باتیں گوارا کر رہا تھا
جب آنکھیں پتھروں میں ڈھل رہی تھیں
دل ِ بینا نظارہ کر رہا تھا
صدیق صائب