کوئی شام مجھ میں سمٹ گئی ‘ مَیں غنودگی میں چلا گیا
مِری آنکھ خواب سے کٹ گئی ‘ میں غنودگی میں چلا گیا
مِرے رُوبَہ رُو کوئی روشنی سی نکل رہی تھی چراغ سے
مِری سَمت آ کے پلٹ گئی ‘ مَیں غنودگی میں چلا گیا
مجھے یوں لگا ‘ مِرے چار سُو کسی باغ جیسا سکوت ہے
مجھے رات آ کے لپٹ گئی ‘ مَیں غنودگی میں چلا گیا
یہی خامُشی تھی جو عمر بھر’ مِرے رَت جگوں کا سبب رہی
یہی درمیان سے ہٹ گئی ‘ مَیں غنودگی میں چلا گیا
فیــصلؔ ہاشِــمی