اردو نظمشعر و شاعریعدیم ہاشمی

شہرِ برباد میں

عدیم ہاشمی کی اردو نظم

شہرِ برباد میں
ایک وحشت کھڑی ہے ہر اک موڑ پر
گرد ناکامیِ عمر کی کوئی سوغات لے کر
ہمارے دلوں کی اداسی
یونہی بے سبب تو نہ تھی
تم نے سمجھا جو ہوتا کسی آرزو کے شکستہ دریچے کی اجڑی ہوئی
داستاں کو کبھی
ہم کو مدت ہوئی
راستہ راستہ
خار و خس کی طرح
گردشیں کاٹتے
اس سے بڑھ کر بھی ہو گا کوئی خواب صد چاک
ظلمت کا مارا ہوا
کیا دکھوں کی یہ ساری کہانی بھلا خواب ہے؟
ہم تو باز آئے
ایسی کسی خوش گمانی
یا امید سے
خوش گمانی میں ہم تو
اذیت کی ساری فصیلوں کو چھو آئے
صدیوں کی ساری اداسی کو
لمحوں میں ہم نے سمیٹا
مگر
اب بھی وحشت کھڑی ہے
ہر اک موڑ پر
گرد ناکامیِ عمر کی کوئی سوغات لے کر
مسافت کے مارے دلوں کے لیے

عدیم ہاشمی 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button