سائیکل کے پیچھے
اِک پنجرے میں چکراتی
نازک چڑیو
صبح کے گم صم سناٹے میں
کیسا شور اُٹھاتی ہو
اُونگھتے اور ٹھٹھرتے
رہ گیروں کے دل میں
چیخ چیخ کر
برسوں سے سوئے ، سمٹے
اِک درد کا تار ہلاتی ہو
چڑیو! ایسے ہُمک ہُمک کر
غُل کرتی تو ہو پر دیکھو
ان کانوں میں
لوؤں تلک سیسہ بہتا ہے
اور پلکوں کے پیچھے پتھر
اور قدموں کے نیچے تختے
ہر دم ڈولتے رہتے ہیں
تم تو پنجرے میں بھی اپنے
پر پھیلائے رکھتی ہو
تم اچھی ہو
کم سے کم
اِک ہوک اُٹھائے رکھتی ہو
گلناز کوثر