اردو غزلیاتحفیظ جالندھریشعر و شاعری

ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تُم کو آ سکے​

اردو غزل از حفیظ جالندھری

ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تُم کو آ سکے​
تُم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بُھلا سکے​

تُم ہی اگر نہ سُن سکے قصہ غم، سُنے گا کون؟​
کس کی زباں کھلے گی پھر، ہم نہ اگر سُنا سکے​

ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم​
بزم کا رنگ دیکھ کر سَر نہ مگر اُٹھا سکے​

رونقِ بزم بن گئے، لَب پہ حکائتیں رہیں​
دل میں شکائتیں رہیں، لَب نہ مگر ہلا سکے​

شوقِ وصال ہے یہاں، لَب پہ سوال ہے یہاں​
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے​

ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان نہ دھر سکے​
سُن کے یقین کر سکے، جا کے اُنہیں سُنا سکے​

عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاجِ دوست​
اب وہ کرے علاجِ دوست جس کی سمجھ میں آ سکے​

اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل​
کون تیری طرح حفیظ درد کے گیت گا سکے​

حفیظ جالندھری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button