فریب دیتی رہی ہیں محبتیں کیا کیا
گزر تی رہتی ہیں دل پر قیامتیں کیا کیا
کبھی بدن کا قفس ہے کبھی زمین کا حبس
رکھی ہیں روح پہ تو نے حراستیں کیا کیا
کبھی ہوس کا پجاری ، کبھی نظر کا اسیر
بشر میں رکھی گئی ہیں جبلتیں کیا کیا
کھلے گا فیصلہ تو لوگ جان جائیں گے
کہ گل کھلاتی رہی ہیں عدالتیں کیا کیا
کبھی تھے تخت پہ بیٹھے کبھی وہ تختےپر
بدلتی دیکھی ہیں ہم نے حکومتیں کیا کیا
اگر کہو تو گنہ کر کے دیکھ لیتے ہیں
بدن کے لمس سے کھلتی ہیں ساعتیں کیا کیا
اسے بھی مجھ سے گلہ میری بے وفائی کا ہے
مجھے بھی خود سے رہی ہیں شکایتیں کیا کیا
دعا قبول نہ ہو تو میں بھول جاتا ہوں
مرے خدا کی ہیں مجھ پر عنایتیں کیا کیا
سوال اس نے کیا تھا بس ایک روٹی کا
نکل پڑی ہیں پھر اس کی ضرورتیں کیا کیا
مرے نبی کے نواسوں کی دشمنوں کو بھی
بیان کرنی پڑی ہیں فضیلتیں کیا کیا
بیان دیتے ہوئے کون سوچتا ہے عدید
کہ اس کی کرنی پڑیں گی وضاحتیں کیا کیا