اے کاش کہ لوٹ آئیں۔۔۔۔۔۔۔
مرے وطن کی خوشیاں ساری
پلٹ آئیں وہ سبھی بہار کے موسم
وہ پھر سے گونجیں فتح کے نغمے ہو سُو
وہ پھر سے پرچمِ سبز کے سائے میں
یہ اک تجدیدِ عہدِ وفا کریں ہم
اے خدا! عزم یہ آج ہم کو عطا کر
کوئی آنکھ میلی سے جو میرے وطن کو دیکھے
چھین لیں گے ایسے دشمن سے بینائی اُس کی
بہا کے جانِ لہو کا آخری قطرہ
کوئی آنچ اس دھرتی پہ نہ آنے دیں گے
یہ التجا اور بھی اک پیشِ نظر ہے
آزادی کے صحیح معنوں سے
اے خدا! اس قوم کو آشنا کر دے
ہزار باطل بھی مل کے گرا سکے نہ جسے
جگر فولاد وہ ہم کو تو عطا کر دے
شبِ بے نور کو ملا دے نئی صبح سے
غنچہء مکدوش کو پھر سے تو ہرا کر دے
تمام ناوکِ دشمن کی توڑ دے نوکیں
بادِ صرصر کو بھی بادِ صبا کر دے۔۔۔۔آمین
اویس خالد