اُس نے نرم کلیوں کو روند روند پاؤں سے
تازگی بہاروں کی چھین لی اداؤں سے
بھیج اپنے لہجے کی نرم گر م کچھ تپش
برف کب پگھلتی ہے ، چاند کی شعاعوں سے
پاؤں میں خیالوں کے ، راستے بچھائے ہیں
آج ہی چرانے ہیں، پھول اس کے گاؤں سے
دور دور رہتی ہے ایک غمزدہ لڑکی
ہجر توں کی راہوں سے ، وصل کی سراؤں سے
تیرے جسم کی خوشبو ، شام کی اداسی میں
موتیے کے پھولوں نے چھین لی ہواؤں سے
پیار کی کہانی میں سچ اگر ملے نیناں
عمر باندھ لیتی ہیں لڑکیاں وفاؤں سے
فرزانہ نیناں