ہے کس کی منتظر یہ پریشان سی گلی
وحشی کے تار تار گریبان سی گلی
جو جا چکے وہ لوٹ کے واپس نہ آئیں گے
اب ہاتھ مل رہی ہے پشیمان سی گلی
پردے پہ ایک عکس تو لہرا کے جا چکا
اور راہ تکتی رہ گئی حیران سی گلی
لوٹے ہیں اپنے شہر پھر اک بار دیکھ لیں
وہ اجڑا گھر وہ بے سر و سامان سی گلی
کھینچے لئے چلی گئیں ہجرت نصیبیاں
آواز دیتی رہ گئی بے جان سی گلی
یوں منتظر ہیں جیسے کوئی آئے گا ضرور
وہ ادھ کھُلے کواڑ وہ سنسان سی گلی
طارق تمہیں پکارتی رہتی ہے رات دن
وہ اک اداس میر کے دیوان سی گلی
ڈاکٹر طارق قمر