یقین رکھ اپنے حوصلوں پر ترے مقدر میں کیا نہیں ہے
اسی کو منزل ملی ہمیشہ جو راستے میں رکا نہیں ہے
لبوں کو سی لو وفا شعارو یہ, بزم دشمن ہے دم نہ مارو
یہاں پہ پابندیاں لگی ہیں، کہ بولنا تک روا نہیں ہے
ابھی تو سر پہ ہے دھوپ یارو, ابھی تو بدلے گا روپ یارو
ابھی نہ تم گھر کی سمت لوٹو، ابھی تو سورج ڈھلا نہیں ہے
وہ جس نے دل کی نظر سے دیکھا، کہاں کا پردہ حجاب کیسا
کہاں نہیں ہے جمال اسکا, کہاں وہ جلوہ نما نہیں ہے
تم آج نفرت کی گانٹھ کھولو، کبھی تو اپنا بھی دل ٹٹولو
کبھی بھی نفرت سے اس جہاں میں، سکوں کسی کو ملا نہیں ہے
اندھیری راتوں کو جگمگاو، پہاڑ میں راستہ بناو
نصیب لکھنا ہے خود ہی اپنا، ہتھیلیوں میں لکھا نہیں ہے
کدورتوں سے بھرا ہے سینہ، بہت ہی مشکل ہے ایسے جینا
کسی سے ملنے کا یہ قرینہ، ہو کچھ بھی لیکن وفا نہیں ہے
حسن کسی کو نہ تم رلاو، ہمیشہ انجام سے خوف کھاو
ابھی تو ہیں ڈبڈبائی آنکھیں، ابھی یہ آنسو بہا نہیں ہے
حسن فتحپوری